• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے طاہر القادری صاحب کے مقتدیوں کا ایمان اپنے امام کے الہامات پر متزلزل ہو چکا ہے ورنہ انہیں سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ طاہر القادری صاحب اہلِ ایمان کو یہ نوید سنا چکے ہیں کہ نواز شریف کی حکومت 31؍اگست یعنی یہی کوئی دو ڈھائی ہفتے تک ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف کو دنیا کا کوئی ملک پناہ بھی نہیں دے گا بلکہ انہوں نے تو یہ بھی بتایا کہ حمزہ شہباز تو امریکہ بھاگنے کی تیاری کر چکے ہیں مگر امریکہ والے انہیں ویزے کے لئے انٹرویو کی تاریخ تاخیر سے دے رہے ہیں۔ اتنے واضح ’’الہامات‘‘ کے بعد چاہئے تو یہ تھا کہ طاہر القادری صاحب کے معتقدین آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھتے یا 31؍ اگست کو حکومت کے خاتمے کا جشن منانے کی تیاریاں کرتے مگر وہ تھانوں پر حملے کر رہے ہیں، انہیں آگ لگا رہے ہیں، بسیں اغوا کر رہے ہیں، پولیس پر تشدد کر رہے ہیں، انہیں اغوا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ تو سراسر اپنے پیر صاحب کے ’’الہامات‘‘ پر عدمِ اعتماد کا اظہار ہے مگر دوسری طرف یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ خود پیر صاحب کو بھی اپنے الہامی خوابوں کے بارے میں کچھ شبہ سا گزرنے لگا ہے کیونکہ دو ڈھائی ہفتوں میں حکومت کے خاتمے کی نوید سنانے کے باوجود وہ اپنے مریدین جن سے وہ سجدہ بھی کرواتے ہیں اور اس سجدے کی ویڈیو بھی مارکیٹ کرتے ہیں، یہ حکم دیتے نظر آتے ہیں کہ پولیس والوں کے گھروں میں گھس جائو اور ایک قرآنی آیت کی من مانی تاویل کرتے ہوئے پندرہ پولیس والوں کو جان سے مارنے پر مائل بھی کر رہے ہیں حالانکہ گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں حامد میر نے پیر صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے دلائل سے ثابت کیا تھا کہ ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت ازروئے شریعت حرام ہے مگر قادری صاحب کے آج اور کل کے بیانات بلکہ دس منٹ پہلے اور دس منٹ بعد کے بیانات کا موازنہ بھی ’’ازروئے شریعت ِ قادری‘‘ چنداں مناسب نہیں۔ یہ حضرت گزشتہ برس بھی کینیڈا سے بطور خاص حکومت ’’برخاست‘‘ کرنے کے لئے پاکستان تشریف لائے تھے اور انہوں نے باہر سردی میں ٹھٹھرتے اور دہشت گردی کے ماحول میں جان ہتھیلی پر رکھ کر بیٹھے ہوئے اپنے مریدوں کو اپنے ہیٹڈ اور بم پروف کنٹینر سے یہ اطلاع دی تھی کہ انہوں نے وزیر اعظم کو برخاست کر دیا ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد ’’مبارک ہو، مبارک ہو‘‘ کی صدائے بلند سے حکومت کے تمام گناہ معاف کرتے ہوئے سب عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر ’’بحال‘‘ بھی کر دیا تھا تاہم یہ تو ہر صاحب ِ اختیار کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو انڈا دے اور چاہے تو بچہ دے۔
چلیں یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے، میرے نزدیک اور ہر محب وطن پاکستانی کے نزدیک یہ بہت افسوسناک ہے تاہم آپ یقین کریں کہ پیر صاحب کے مریدین کے علاوہ میرے سمیت وہ تمام پاکستانی جو ٹی وی چینلز سے قادری صاحب کی تقاریر سنتے ہیں، انہیں ان کے لب و لہجے اور بار بار رومال سے منہ سے نکلتی جھاگ صاف کرتے دیکھ کر ایک طرح کا ’’کامک ریلیف ‘‘ (COMIC RELIEF)بھی ملتا ہے۔ وہ اس طرح بات کر رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی قائد انقلاب کامیاب انقلاب کے بعد کے لب و لہجے میں بات کرتا ہے۔ وہ مجھے ڈان کوئکزوٹ کی طرح لگتے ہیں ، جو پن چکیوں کو دشمن کی فوج سمجھ کر تلوار سے ان پر حملہ کر دیتا ہے۔ لوگ یہ سوچ کر بھی محظوظ ہوتے ہیں کہ یہ صاحب ایک غیر ملکی شہری ہیں اور انہوں نے جھوٹ بول کر کینیڈا میں پناہ لی تھی۔ پاکستان کے کسی بھی مسلک کے لوگ ان کے پیروکار نہیں ہیں۔ پاکستان کی کوئی ایسی جماعت یا قیادت ان کے ساتھ نہیں ہے جس کی پارلیمنٹ میں کوئی نمائندگی ہو۔ ان کی اپنی جماعت کا بھی کوئی نمائندہ پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے۔ ان کے پاس لے دے کر وہی چالیس پچاس ہزار سادہ لوح مریدین ہیں جو ان کی ان باتوں پر یقین کر بیٹھے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکستان تشریف لائے تھے اور ہر پاکستانی سے ناراض ہو کر واپس مدینہ جانا چاہتے تھے۔ سب مکاتب فکر کے علماء نے ان سے دست بستہ درخواست کی کہ وہ واپس تشریف نہ لے جائیں لیکن جب طاہر القادری صاحب نے انہیں واپس جانے سے روکا تو آپؐ نے فرمایا ’’اچھا طاہر القادری اگر تم کہتے ہو تو میں ابھی واپس مدینہ نہیں جاتا لیکن جب مجھے جانا ہو گا تو مدینے کے پی آئی اے کا ٹکٹ تمہارے ذمے ہو گا اور جتنا عرصہ میں پاکستان میں قیام کروں گا اس کا انتظام بھی تمہارے ذمے ہو گا اور ہاں میرے کھانے پینے کا انتظام بھی تم ہی نے کرنا ہے۔‘‘ اب آپ ہی بتائیں ایسے شخص کی باتوں پر اگر ہنسا نہ جائے اور دل میں لا حول ولا قوۃ نہ پڑھا جائے ، تو کیا کیا جائے؟
اب اگر تھوڑی سی سنجیدگی سے معاملے کو دیکھا جائے تو اس کے سوا کوئی بات سمجھ نہیں آتی کہ قادری صاحب کسی کے اشارے پر پاکستان میں سیاسی بساط لپیٹنے اور گزشتہ ایک برس کے دوران ریکارڈ معاشی ترقی کا راستہ روکنے کے لئے تشریف لائے ہیں ، وہ اپنے اس مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اِ ن شاء اللہ سیاسی عمل جاری رہے گا لیکن افراتفری کا ماحول پیدا کر کے وہ عام لوگوں کو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شک و شبے میں مبتلا کرنے کی کوشش ضرور کریں گے جس کی ابتدا وہ کر چکے ہیں۔ ذرا یہ صورتحال ذہن میں رکھیے کہ پاکستان میں طالبان نے دہشت گردی کا طوفان برپا کیا ہوا تھا۔ ہماری فوج پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ ان کے قلع قمع میں لگی ہوئی ہے۔ افغانستان افراتفری کا شکار ہے، عراق میں آئی ایس آئی ایس، شام میں النصرہ فرنٹ، صومالیہ میں الشّباب ، نائیجیریا میں بوکو حرم ، اور کئی دوسرےاسلامی ممالک میں القاعدہ مسلم حکومتوں کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پاکستان کو کمزور کرنے کے ’’کارِ خیر‘‘ کے لئے قادری صاحب چھٹیوں پر کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ’’جنگ‘‘ کے قاری فیاض اعوان نے کراچی سے مجھے ایک ایس ایم ایس بھیجی ہے جس میں کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو بالواسطہ طور پر قتل کرنے کی ترغیب دینے والے قادری صاحب نے اپنی حفاظت کے لئے عورتوں کا دستہ مقرر کیا ہے جو تاریخ کی ایک نادر مثال ہے۔ بہرحال قادری صاحب اور اس قماش کے دوسرے لوگ شاہراہِ ترقی کے اسپیڈ بریکر ہیں۔ انہیں بہرحال راستے سے ہٹانا ہو گا ورنہ پاکستانی عوام کی خوشحالی کی منزل دور سے دور ہوتی چلی جائے گی۔
تازہ ترین