مجھے مفتی نعیم صاحب کی اس بات سے اختلاف ہے کہ طاہر القادری صاحب کو ٹی وی چینلز’’علامہ‘‘ نہ کہیں کیونکہ وہ ایک بے علم آدمی ہیں اور خدائی احکام کے برعکس زمین پر فساد برپا کررہے ہیں، قبلہ مفتی صاحب کو شاید علم نہیں کہ پاکستان میں قادری صاحب نے قرآن پر حلف اٹھا کر کہا تھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے 19برس عالم رویا(خواب)میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد انڈیا میں اسی طرح قرآن پر حلف اٹھاتے ہوئے انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی شاگردی میں چار سال تخفیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ ؒکے سامنے عالم رویا میں15 سال تک زانوئے تلمذ تہہ کیا تو جس شخص نے علم دین براہ راست امام ابوحنیفہؒ سے حاصل کیا ہو، مفتی نعیم صاحب ان کے علامہ ہونے پر کیسے اعتراض کرسکتے ہیں، میں نے یہ بات آج تک چھپا کر رکھی تھی تاہم آج انکشاف کررہا ہوں اور قادری صاحب کو شاید یاد ہو کہ امام ابوحنیفہؒ سے حصول تعلیم کے دوران میں ان کا کلاس فیلو تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امام ابوحنیفہؒ اکثر بھری کلاس میں قادری صاحب کو مرغا بنا کر ان کی کمر پر علامہ طاہر اشرفی کو لاد دیا کرتے تھے جس پر ان کی چیخیںنکل جاتی تھیں۔ دراصل یہ جھوٹ بہت بولتے تھے اور کئی دفعہ بلاوجہ بھی بولتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ا مام ؒصاحب سے کہا کہ آپ کو علم ہے میں امام حسینؓ کی معیت میں یزیدی لشکر کے خلاف لڑا تھا اور شہادت کا درجہ پایا تھا۔ اس بار قادری صاحب کی یہ بات سن کر امام ابوحنیفہؒ غصے میں نہیں آئے بلکہ انہوں نے مسکرا کر کہا ’’شہادت کا درجہ پانے کے بعد پھر تم زندہ کیسے ہوئے‘‘ جس کا ترت جواب قادری صاحب نے یہ دیا’’آخر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی توقیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے‘‘ اس پر امامؒ نے ایک بار پھر قادری صاحب کو مرغا بننے کو کہا اور علامہ طاہر اشرفی کو ان کی کمر پر بٹھادیا۔
مگر اس کے باوجود قادری صاحب بزرگان دین سے اپنی بے تکلیفوںکا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیںاور ان کے سادہ لوح مرید ان کی خرافات پر سر دھنتے نظر آتے ہیں۔ ایک دفعہ ان حضرت نے فرمایا کہ’’حضورنبی کریمؐخواب میں تشریف لائے اور یہ نوید سنائی کہ ’’طاہرالقادری تمہاری عمر63 برس ہوگی‘‘ جس کے جواب میں قادری صاحب نے کہا’’حضورؐ میں عمر میں بھی آپ سے برابری نہیں کرسکتا،لہٰذا میری عمر گھٹا دی جائے‘‘حضور اکرمؐ نے فرمایا’’ٹھیک ہے طاہر القادری تمہاری عمر میں سے ایک سال گھٹا دیتا ہوں، تم 63 نہیں 62 برس کی عمر میں وفات پائوگے‘‘ کوئی ہے جو پتہ کرے بلکہ کوئی اور کیوں برادرم جبار مرزا تحقیق کرکے بتائیں کہ ان کے 6 2 برس ہونے میں کتنے دن باقی ہیں یا کہیں انہوں نے عمر کے حوالے سے بھی نعوذ باللہ ،حضوراکرمؐ سے برابری یا برتری تو حاصل نہیں کرلی؟ ویسے نواز شریف کے ایک گزشتہ دور میں قادری صاحب نے خود پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا اور اپنے گھر کی دیواروں پر بکرے کے خون کے چھینٹے بکھیر دئیے تھے، نواز شریف نے اس’’سانحہ‘‘ پر عدالتی تحقیقات کا حکم دیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران جج نے ’’علامہ صاحب سے پوچھا’’کیا حضورؐ کی بشارت کے مطابق آپ کی عمر 62 برس ہوگی؟‘‘ علامہ صاحب نے پورے یقین سے کہا ’’جی بالکل حضورؐ کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے؟‘‘ اس پر جج نے کہا’’تو پھر آپ اپنے ساتھ گن مین کیوں لئے پھرتے ہیں، کیا آپ کو نعوذ باللہ حضورﷺ کی بات پر یقین نہیں؟‘‘ اس پر علامہ صاحب خاموش ہوگئے۔ بہرحال ’’سانحہ‘‘ کی مکمل تحقیقات اور اصل صورتحال پوری طرح سامنے آنے کے بعد عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا’’طاہرالقادری ایک جھوٹا اور فریبی شخص ہے’’اللہ کرے اس جج کے جسم میں کیڑے پڑیں جس نے شیخ السلام قائد انقلاب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ صاحب کے حوالے سے یہ گستاخانہ کلمات تحریر کئے تاہم کوئی پتہ نہیں کہ اس جج کو بھی بشارت ملی ہو کہ اس شخص کے بارے میں یہ کلمات درج کرو،تاہم میں اس سلسلے میں واللہ اعلم بالصواب کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مفتی نعیم صاحب سے معذرت کے ساتھ’’علامہ‘‘ طاہر القادری نے آج تک جتنے دعوے کئے ہیں ،کیا وجہ ہے کہ میرے جیسا حسن ظن رکھنے والا شخص بھی ان دعوئوں کے حوالے سے بدگمانی کا شکار ہوجاتا ہے، میرے خیال میں اللہ قادری صاحب کا امتحان لیتا ہے کہ اپنے دعوئوں پر یہ شخص کب تک قائم رہتا ہے۔قادری صاحب تو اپنے دعوئوں میں اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضورﷺکی پاکستان آمد کے لئے پی آئی اے کے ٹکٹ ، کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور 22کورسزوالے کھانوں کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اپنے مریدوں سے کروڑوں روپے اینٹھے تھے تاہم اس سے قطع نظر ان کے کچھ دعوے بالکل ’’بے لوث‘‘ بھی ہیں، مثلاً یہ کہ ان کے والد بہت بڑے ڈاکٹر تھے اور ایک سعودی بادشاہ کے کامیاب علاج پر بادشاہ سلامت نے انہیں ایک مسند اور خلعت عطا کی تھی اور یہ دونوں چیزیں کہیں گم ہوگئیں ، ان کے والد بہت بڑے شاعر تھے، ان کے بیسیوں مجموعے ہائے کلام شائع ہوچکے ہیں مگر افسوس ان میں سے ایک مجموعہ بھی دستیاب نہیں۔ تیسرے یہ کہ ان کے والد بہت بڑے صوفی بزرگ تھے اور ان کا مرتبہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کے برابر تھا ،مگر اللہ نے ان کا یہ مرتبہ خلق خدا سے پوشیدہ رکھا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ قادری صاحب لکھ چکے ہیں ظاہر ہےایسے دعوئوں سے قادری صاحب کے مرحوم والد کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا، بے لوثی اسی کو تو کہتے ہیں۔
میں نے یہ سارا کالم ،سچی بات پوچھیں تو قادری صاحب کے مریدوں اور ان کے ملازموں کو دلاسا دینے کے لئے لکھا ہے، دراصل گزشتہ روز انہوں نے اپنی تقریر میں اپنے ادارے کے ملازموں اور سادہ لوح مریدوں کو یہ’’تڑی‘‘ لگائی کہ اگر تم میں سے انقلاب آنے سے پہلے اسلام آباد سے اٹھ کر چلا آئے تو اسے قتل کردیا جائے۔ قادری صاحب گزشتہ برس خود اسلام آباد کے دھرنے سے بھاگ آئے تھے اور انہوں نے اس کی پاداش میں خود کو قتل نہیں کیا تھا لہٰذا ملازمین اور مریدین بے دھڑک اسلام آباد جائیں ،وہاں جو کام کرنے ہیں یا دامن کوہ وغیرہ کی سیر کرنی ہے اس سے فراغت پاکر واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں کیونکہ علامہ صاحب اپنے اس بیان سے مکر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے مذاق سے یہ بات کہی تھی اور ان کا اشارہ کارکنوں کی طرف نہیں بلکہ اپنے اور عمران خان کی طرف تھا۔ یوم شہداء پر ہنسی مذاق کی باتیں؟ یہ کام قادری صاحب ہی کرسکتے ہیں، دوسری یہ کہ ان کا عذربدتر از عذرکے زمرے میں آتا ہے، یعنی انہوں نے اپنے پیروکاروں کے قتل کا نہیں، عمران خان کو قتل کا حکم دیا ہے ،جیو قادری صاحب۔
اور قادری صاحب کی ایک اور ادا!قادری صاحب نے اپنے جلسے میں خود کو امام حسینؓ اور اپنے پیروکاروں کو حسینی لشکر تصور کرتے ہوئے کہا کہ شب عاشورہ کو امام عالی مقام نے دیا بجھا دیا تھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ تم میں سے جو جانا چاہے اور شرمندگی کی وجہ سے نہ جارہا ہو، وہ اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نکل جائے۔ اس کے بعد قادری صاحب نے فرمایا’’یہ لیں، میں آنکھیں بند کررہا ہوں جس نے جانا ہو وہ چلا جائے‘‘ اور پھر حضرت نے چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند بھی کرلیں۔اللہ کرے طاہر القادری صاحب کی ،اگر پہلے نہیں تو اب آنکھیں کھل جائیں کہ عوام ان کی کہہ مکرنیوں سے پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ میں انہیں یہ مشورہ ان کے ایک پرانے ’’کلاس فیلو‘‘کے طور پر دے رہا ہوںامید ہے وہ قبول فرمائیں گے، ورنہ میں ان کی جھنگ میں قیام کے دوران وقوع پذیر ہونے والے کچھ سچے واقعات سے بھی پردہ اٹھانے کا سوچ رہا ہوں۔