آج جس صورتحال سے پاکستان دوچار ہے اس کی بڑی وجہ وہ عدم توازن ہے جو ریاست کے اداروں کے درمیان روا رکھا گیا ہے۔ اداروں کو چلانے والے آئینی حدود کو مسمار کررہے ہیں۔ آئین اس لئے ہوتا ہے کہ ملک میں اس کی روح کے مطابق عملدآری قائم کی جائے جہاں آئین و قانون کے مطابق امور ریاست نہیں چلائے جاتے وہاں نہ امن و امان قائم ہوسکتا ہے اور نہ عدل۔ جہاں عدل قائم نہ ہوسکے وہاں امن شکنی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے اور ہم یہی کچھ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
ہر کھیل کے ضوابط ہوتے ہیں، اصول ہوتے ہیں اور آداب ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے بھی اصول ہیں اگر جمہوریت کو اصول کے مطابق نہیں چلایا جائے گا تو جمہوریت نہیں چل سکتی۔ مملکت میں افراتفری پھیل جاتی ہے، کبھی ایک ادارہ حدود کو پارکرتا ہے کبھی دوسرا اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے اور کبھی تیسرا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ عدل و انصاف نہیں ہوتا جبکہ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ باہم عدل کرو انصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اگر بیٹا جرم کرتا ہے اور باپ قاضی ہے، جج ہے تو اس کو سزا دینا عدل کا تقاضہ ہے۔ حضرت عمرؓ دوسرے خلیفہ راشد تھے ان کے بیٹے نے جرم کیا انہوں نے اس کو سزا دی ایک تاریخ رقم ہوگئی۔ یہ انہوں قرآن اور حدیث کے احکام کے مطابق کیا ایسے نظام میں نہ حکمران ظلم کرسکتا ہے نہ جج۔
احتجاج یقیناً عوام کا اور سیاسی پارٹیوں کا آئینی حق ہے اس کو روکنا آئین شکنی کے مترادف ہے جو احتجاج کررہے ہیں انہیں طاقت کے استعمال کے بجائے، دھمکیوں کے بجائے دوسرے آپشن اختیار کرنے چاہئے تھے۔ حکومت نے بھی صورتحال کو سمجھا نہیں۔ وزیراعظم کے مشیر انہیں صحیح وقت پر بروقت فیصلہ کرنے کا درست مشورہ نہیں دے سکے۔ ان کے چند وزیر و مشیر معاملات کو اس نوبت تک لے گئے کہ معاملہ حل اور ڈی فیوز ہونے سے آگے نکل گیا ہے۔
دونوں فریق ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ واپسی ناممکن نظرآرہی ہے۔ سیاست کے یہ کون سے طریقے ہیں۔ میاں نوازشریف جو پہلے بھی دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں کیا اپنی صوابدید سے معاملے کو حل نہیں کرسکتے تھے؟ لیکن انہیں پہلے دو دفعہ بھی ان کے مشیروں نے غلط راستہ دکھایا تھا اور اس بار بھی وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ کیاایسے شخص کیلئے وزیراعظم ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے جو پہلے بھی دو دفعہ وزیراعظم رہاہو۔ انہیں اگر عوام چاہتے ہیں تو اسےتیسری بار بھی وزیراعظم رہنا چاہئے لیکن کیا یہ مناسب نہ تھا کہ وہ محض سیاسی لیڈر بننے کے بجائے قوم کے رہنما بن کر سامنے آتے۔ میں نے یہ مشورہ ان کو اپنے کالم میں پہلے بھی دیا تھا جس کا عنوان تھا ’’سیاستداں نہیں رہنما بن کر دکھائیے‘‘ اور یہ مشورہ کب دیا تھا ذرا غور کیجئے 26 اپریل 1997 میں کاش وہ یہ بات مان لیتے اس وقت وہ وزیراعظم تھے۔ میری یہ بات یاد رکھیں کہ مسئلہ وہی حل کرائیں گے جنہوں نے پہلے کرایا تھا وہی بیچ میں پڑیں گے تو مسئلہ حل ہوگا۔ وہ قوتیں آگے آتی نظر آرہی ہیں۔ سب سے پہلے حکومت کو اپنے لوگوں کو دھواں دھار تقریریں کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے اس سے فضا میں گرمی کم ہوگی اور ان قوتوں کو بھی اپنی بات منوانے میں مدد ملے گی جو مصالحت کرانے کیلئے آگے آئی ہیں۔ سیاست کو دشمنی نہ بنائیں سیاست ہی رہنے دیں۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بات چار نشستوں پر دھاندلی کی تھی یہ ایک دم وزیراعظم کے استعفے تک کیوں جاپہنچی، کیوں؟ اب یہ کہا جارہا ہے حکومت بھی جعلی ہے اور اسمبلی بھی جعلی ہے۔ دونوں فریق یہ سمجھ لیں کہ انہیں سمجھوتہ کرنا ہے جتنی جلدی ممکن ہو کسی نتیجے پر پہنچا جائے۔ جتنی دیر ہوگی معاملات اتنے ہی خراب ہوں گے۔ یہ دھرنے پنجاب کے دوسرے شہروں تک پھیل سکتے ہیں۔ اگر لاہور میں ملتان میں گجرات میں غرض پنجاب کے بڑے شہروں تک دھرنوں کی وبا پھیلی تو معاملات سب کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔ پنجاب ریاست کا پاور انجن ہے اگر وہ جام ہوگیا تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔
یہ معاملہ اور تنازع اتنا کبھی نہ بڑھتا اگر ذرا سی عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے جو بات دبائو میں آکر کہتی ہے کہ وہ بیس نشستوں پر گنتی کراسکتی ہے۔ اگر پہلے کہتی کہ ٹھیک ہے چار نشستوں کے نتائج کا جائزہ لیا جاسکتا ہے تو عمران خان کی پوزیشن کمزور ہوجاتی۔
وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے حکمرانوںکو یہ باور کرایا کہ قادری صاحب کو اہمیت نہ دی جائے، وہ ان کے نادان دوست ہیں۔ صورتحال کا تقاضہ یہ تھا کہ دونوں کو اہمیت دینے کی ضرورت تھی اور یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے تھی کہ طاقت کا استعمال حکومت کیلئے انتہائی نقصان کا باعث ہوگا۔ ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا یہ بہت بڑی نادانی اور سیاسی بلنڈر تھا اس کے نتائج کا سامنا آج کرنا پڑرہا ہے اور کرنا پڑے گا، یہ نادان دوست ہی ہیں جو حکمرانوں کو بندگلی میں دھکیلتے ہیں۔
میں قادری صاحب اور عمران خان صاحب سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کی سلامتی کا خیال رکھیں ایسا نہ ہو کہ انتشاروخلفشار دیکھ کر کہیں دشمن یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایک ناکام ریاست میں بڑا خطرہ ہے اور پرویز مشرف کی ملک کیلئے یہ بڑی خدمت ہے کہ انہوں نے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کسی بھی قوت کو پاکستان پر بری نظر نہیں ڈالنے دی اور یہ پہلا حکمراں ہے جس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔
ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہئے اس لئے کہ ہم پاکستان کو اتحاد سے محفوظ بناسکتے ہیں۔ ماضی کو بھول جائیں مستقبل کی طرف دیکھیں عہد کریں ہم سب ایک ہیں اور یہی سب سے بڑا سچ ہے۔ شکر پڑیاں تو گواہ رہنا میں نے اپنے پیارے نبیﷺ کا پیغام پہنچادیا ہے کہ ’’میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں نہ کاٹنے لگنا۔‘‘