جتنی ہم میں انا پرستی ہے شاید ہی دنیا کی کسی قوم میں ہو۔اگر یہ قومی معاملات پر اثر انداز نہ ہو تو کوئی بات نہیں تاہم اس کے سیاسی میدان میں کافی دخل ہونے کی وجہ سے بے شمار مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔انا پرستی کا شکار ہمارے بہت سے سرکردہ سیاسی رہنما بھی ہیں ۔ مگرکچھ ایسے بھی لیڈر ہیں جو اس وبا کو ایک طرف رکھ کرقومی مفادات، جمہوریت اور آئین کو سامنے رکھتے ہیں وہ یقیناً قابل تعریف ہیں۔ بعض سیاستدانوں میں انا پرستی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے ملک اور قوم کو سخت مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو دیکھیں۔ وہ اپنی انا کی تسکین کے لئے کنٹینر سے نیچے اترنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ نہ صرف انہیں بلکہ ان کی جماعت کے ہر رہنما کو اس دن سے جب سے انہوں نے اپنا موجودہ احتجاج شروع کیا ہوا ہے کو یقین ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ان کے دبائو کی وجہ سے مستعفی نہیں ہوں گے مگر عمران خان پھر بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں ۔ان کے اسی روئیے کی وجہ سے پی ٹی آئی اور حکومتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہو رہے۔ ایک طرف ڈائیلاگ چل رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کپتان اپنے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بار بار یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ’’اوئے نوازشریف استعفیٰ دو ‘‘۔ اگر تو یہ نعرے بازی حکومتی نمائندوں پر دبائو کے لئے ہو تو سمجھ میں آتی ہے مگر ان کا ساتھ یہ کہنا کہ اگر انہیں ایک سال تک بھی کنٹینر میں رہنا پڑا تو وہ رہیں گے اور نوازشریف کے استعفے کے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے۔ حالانکہ یہ بھی ایک بڑھک ہی ہے کیونکہ وہ زیادہ عرصہ اپنے بنی گالا اسلام آباد والے گھر میں گزارتے ہیں اور رات کو کچھ گھنٹوں کے لئے خطاب اور میوزیکل کنسرٹ کے لئے کنٹینر میں آجاتے ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان انتہائی سمجھدار، زیرک اور بے داغ سیاستدان ہیں مگر ہیں بڑے غصیلے اور ضدی۔ وہ کسی قسم کی فضول بات یا بے جا اور سازش بھری تنقید کو برداشت نہیں کرتے۔ ان کا یہی رویہ نہ صرف اپنی جماعت کے اندر ہوتا ہے بلکہ اس کے باہر بھی اور عام زندگی اور پارلیمنٹ میں بھی۔ وہ بھی بڑے انا پرست ہیں مگر اس بارتو انہوں نے ایسی مثال قائم کی جو ان کی پوری 30 سالہ سیاسی زندگی جو انہوں نے ایک ہی جماعت یعنی نون لیگ کے ساتھ گزاری ہے میں نہیں ملتی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی)کے سینیٹر اعتزاز احسن بھی جو بڑے انا پرست ہیں نے چوہدری نثار پر بلا وجہ اور بلا جواز تنقید کے تیر برسائے جس کا جواب وزیر داخلہ نے بھی اپنے مخصوص انداز میں دیا۔ یہ سب کچھ پارلیمان کے باہر ہوا۔ اب باری تھی اعتزاز احسن کی جنھوں نے جواب پارلیمان میں دیا اور نہ صرف چوہدری نثار بلکہ حکومت پر بھی حملوں کی تمام حدیں کراس کردیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ ابھی واک آئوٹ کریں تو اپوزیشن کا کوئی بھی غیرتمند ممبر یہاں نہیں بیٹھے گا اور اس طرح وہ حکومت کی دھرنوں کے خلاف مزاحمت کو ختم کردیں گے اور پھر پارلیمان کو چلتا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ قابل افسوس بات تھی کہ ان کے پائے کا سیاستدان اپنی انا پرستی کے لئے اس طرح کی بات کرے۔ ان کے ساتھی خورشید شاہ اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے تو چوہدری نثار کو وزیراعظم کے لئے آستین کا سانپ ہی قرار دے دیا۔
اس کے بعد چوہدری نثار کا کڑا امتحان شروع ہو گیا ۔ نہ صرف وزیراعظم بلکہ تمام وزراء، حزب اختلاف کے رہنمائوں اور (ن) لیگ کے سرکردہ حضرات نے وزیر داخلہ کی بار بار منت سماجت کی کہ وہ اعتزاز احسن کو جواب نہ دیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جمہوریت، پارلیمان اور حکومت کے خلاف جو سازش دھرنوں کے ذریعے ہوئی ہیں اور جس کو تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتحاد نے بری طرح ناکام کر دیا کو ٹھیس پہنچے ۔بالآخر چوہدری نثار مان گئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ اسٹیٹس مین ہیں انا پرست نہیں ہیں اور اپنی عزت اور ضمیر کو ایک طرف رکھ کر جمہوریت، آئین اور ملک کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ جو کچھ اعتزاز احسن نے ان کے بارے میں کہا وہ درگزر کرتے ہیں میلہ لوٹ لیا۔ اس کے بعد ہر طرف سے ان پر پھول نچھاور کئے گئے حالانکہ ان کی پریس کانفرنس سے 30گھنٹے قبل تمام دھرنے والے اور سازشی عناصر بڑے خوش تھے کہ چوہدری نثار اعتزاز احسن کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر نہ صرف حکومت بلکہ نظام کو ہی لپیٹ لیں گے مگر وہ ’’درگزر‘‘ کا لفظ سن کر کومے میں چلے گئے۔ بلا شبہ چوہدری نثار کو بہت بڑی اخلاقی فتح نصیب ہوئی۔ اس کے بعد نہ صرف اعتزاز احسن بلکہ پی پی پی کے کسی رہنما کے پاس ایک لفظ بھی نہیں رہا کہ وہ وزیرداخلہ کے خلاف کہہ سکتے لہٰذا انہوں نے بھی اچھی اسپرٹ کا مظاہرہ کیا ۔ بلکہ اعتزاز احسن نے تو یہاں تک کہا کہ پلان اے،بی اور سی کے بعد ان کے اور چوہدری نثار کے درمیان مفاہمت کی وجہ سے پلان ڈی بھی جو حکومت ،آئین اور پارلیمان کے خلاف تھا ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے بعد پارلیمان میں جمہوریت کش سازشوں کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان جو تاریخی اتحادقائم ہوا وہ پھر واپس آگیا۔
عمران خان جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں کو چاہئے کہ وہ کم ازکم اپنے کلاس فیلو اور پرانے دوست چوہدری نثار سے ہی کچھ سیکھ لیں تاکہ ان کی وجہ سے جو ملک میں بربادی ہوئی ہے اور مزید ہو رہی ہے اس کو روکا جاسکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے کارکنوں کو روزانہ میوزک پر جھومتے دیکھ کر اور چیئرمین پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) ڈاکٹر طاہر القادری کے فرمودات سن کر سرشرم سے جھک جاتا ہے جب ملک کی تباہی آنکھوں کے سامنے آتی ہے ۔ان کے دھرنوں کی وجہ سے اب تک پاکستان کی معیشت کو550 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے ۔ چینی صدر کا تاریخی دورہ سیکورٹی کی وجہ سے ملتوی ہو چکا ہے ۔ انہوں نے اس کے دوران 32ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرنے تھے ۔ یہ دھرنے والوں کے سب سے بڑے قومی جرائم ہیں جس کی سخت سے سخت سزا انہیں عوام کواگلے انتخابات میں ضرور دینی چاہئے ۔عمران خان کی لا علمی کا اندازہ لگائیں کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ 32ارب ڈالر چین پاکستان کو بڑے سود پر قرضہ دے رہا ہے اور یہ سرمایہ کاری نہیں ہے ۔ سوائے اس پر عقل ماتم کرے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔حقا ئق یہ ہیں کہ چینی کمپنیاں اپنے بینکوں سے قرضہ لے کر پاکستان میں مختلف منصوبوں میں انویسٹمنٹ کریں گی اور وہی ان کو قرضہ واپس کریں گی۔ پاکستان پر ایک پیسے کا بھی قرضہ نہیں ہو گا اور یہ منصوبے بی ا و ٹی کی بنیاد پر چلیں گے۔ بجائے اس کے کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری چینی صدر کے دورے کے ملتوی ہونے پر شرمندہ ہوتے اور یہ سوچتے کہ کیسے جلدی جلدی یہ دھرنے ختم کئے جائیں تاکہ یہ دورہ ہو سکے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت اس کے التوا کی ذمہ دار ہے اور ہم تو چینی صدر پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرنے والے تھے۔ وہ یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ جمہوریت، آئین اور پارلیمان کے خلاف سازش جو ان کے ذریعے اسکرپٹ رائٹر مکمل کررہا تھا ناکام ہو چکی ہے ۔ سب کہہ رہے ہیں کہ دونوں دھرنوں میں لوگوں کی شمولیت بہت کم ہو چکی ہے اور ہر روزکم ہورہی ہے ۔ لہٰذا ان کے لئے اگر با عزت واپسی کا راستہ رہ گیا ہے تو وہ یہی ہے کہ وہ یہ بوریا بسترا لپیٹیں اور گھر چلے جائیں تاکہ ملک کی اس عذاب سے جان چھوٹے۔ حکومت آئین اورقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے عمران خان کے پانچ مطالبات ماننے کو تیار ہے یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔