لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانوی پارلیمنٹ میں آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ آن ٹیکلنگ ٹیررازم کے چیئر نے برطانوی حکومت سے کہا ہے کہ وہ یہ وضاحت کرے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے لندن میں مقیم لیڈر الطاف حسین کے خلاف پاکستان میں اقتصادی سرگرمیوں کے حب کراچی میں لوگوں کو تشدد پر اکسانے پر ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ ہوم سیکرٹری امبررڈ ایم پی اور فارن سیکرٹری بورس جانسن ایم پی کے نام خط میں خالد محمود لیبر ایم پی پیری بار نے کہا کہ برطانوی حکومت کی خاموشی سوالیہ ہے اور یہ کہ لندن سے پاکستان میں تشدد پر اکسانے کے اقدام کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ خالد محمود نے لکھا کہ الطاف حسین20سال سے زائد عرصے سے برطانیہ میں جلاوطن ہیں انہوں نے برطانوی حکومتی وزراء سے کہا کہ22اگست کو پاکستان میں دو ٹی وی چینلز پر حملوں کے لئے الطاف حسین نے اکسایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ برطانوی شہریوں کو پاکستان جیسے برطانیہ کے اتحادی ملکوں کے خلاف برطانیہ کی سرزمین کو سیاسی بیس بناکر استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ کیا آپ مجھے اس کی وضاحت کرسکتے ہیں کہ برطانوی حکومت نے اب تک الطاف حسین کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا۔ الطاف حسین کے حوالے سے برطانوی حکومت کے میٹرو پولیٹن پولیس اور کائونٹر ٹیررازم آفیسرز سے کیا روابط ہیں۔ خالد محمود نے برطانوی حکومت سے پوچھا کہ پاکستان میں دو ٹیلی ویژن کے خلاف لندن سے تشدد پر اکسانے پر کیا اقدامات کئے گئے اور فارن آفس نے ان حملوں کے بعد پاکستان کو کس نوعیت کی معاونت آفر کی؟ ٹیرر ازم سے نمٹنے کے لیے فارن آفس اور سیکورٹی سروسز پاکستانی حکومت سے تعلقات مستحکم کرنے کے لیے کیا کام کررہے ہیں۔ کیا ہوم سیکرٹری انفرادی طور پر منافرت اور تشدد پر اکسانے والوں سے نمٹنے کے لئے برطانوی حکومت کی پوزیشن کی توثیق کریں گی۔ چاہے یہ برطانوی یا غیر ملکی سرزمین پر ہو۔ لیبر ایم پی نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کی انتہائی اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جو حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی قابل تشویش ہے کہ ایکسپلوسوز کی فہرست مبینہ طور پر الطاف حسین کے گھر سے ملی تھی، لیکن پولیس نے اب تک ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔