کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) کئی لازوال فلمی گیتوں اور ملی نغموں کے شاعرکلیم عثمانی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 16برس بیت گئے لیکن ان کے تحریر کردہ گیت اور ملی نغمے آج بھی دلوں کو گرما دیتے ہیں۔ برصغیر کی فلمی تاریخ میں کچھ نغمہ نگار ایسے بھی تھے جنہیں صرف گیت نگاری کی وجہ سے ہی شہرت نہیں ملی بلکہ انہیں ایک عمدہ غزل گو کی حیثیت سے بھی جانا جاتا تھا۔ ان میں ایک نام کلیم عثمانی کا بھی تھا جنہوں نے بے مثال فلمی گیت تخلیق کئے اور اس کے علاوہ ایک خوبصورت غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الہٰی تھا اور وہ 28 فروری 1928ء کو دیوبند ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے۔1955میں انہوں نے کراچی میں بننے والی فلم انتخاب سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیاجس کے موسیقار فیروز نظامی تھے۔اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے نغمے لکھے۔انیس سو چھیاسٹھ میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل’ ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔ بعدازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کئے۔جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت’ تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا ‘اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت ’تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی ‘ پر نگار ایوارڈ حاصل کئے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘‘ تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ ’’یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے‘‘ کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے۔کلیم عثمانی، 28اگست 2000ء کو لاہور میں وفات پا گئے لیکن ان کے فلمی گیت اور غزلیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔