میرابچپن کا کلاس فیلو اور دوست’’ س‘‘ اسمبلی کا ممبر تو بن گیا مگر جب بھی ملاقات ہوئی پریشان ہی نظر آیا۔ اس کی پریشانی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ’ حکمرانوں کا قُرب حاصل نہیں ہوا ۔ وزیر اعلیٰ صاحب نہ لفٹ کراتے ہیں نہ ملاقات کا وقت دیتے ہیں‘۔ ایک بار مجھ سے آکر اِس مسئلے کا حل پوچھنے لگا تو میں نے معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں اس فیلڈ میں کورا ہوں۔ جو لوگ آپ کی قیادت کے قریب ہیں ان سے پوچھ لو۔ کہنے لگا نہیں ان سے پوچھوں تو بے عزّتی ہوگی۔ آخر عزّت بھی کوئی چیز ہے۔ میں چاہتا ہوں مقصد بھی حاصل ہوجائے اور بھرم بھی قائم رہے۔
پھر ایک روز فون آیا کہ اتوار کو گھرپر ہی رہنا کہیں چلنا ہے۔ وقت مقررہ پر وہ آ پہنچا۔ میں نے پوچھا کہاں جانا ہے؟ کہنے لگا مذاق نہ سمجھنا شہر میں ایک روحانی شخصیت کا بڑا چرچا ہے۔ ’’پیرصاحب کوہستانی‘‘ پہاڑوں پر کئی سال عبادت ا ورریاضت میں گزارنے کے بعد اب عوام الناس کی خدمت کیلئے کچھ دیر کیلئے شہرمیں آئے ہیں۔ میں نے کہا تمہاری تو ھّم پرستی نہ گئی، کہنے لگا ’نہیں یہ پیر صاحب بڑے پڑھے لکھے اور جدید دور کے تقاضوں کا مکمّل ادراک رکھتے ہیں۔ کمپیوٹر سے تعویز نکالتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو من کی مراد ملی ہے۔ VIPsکا تانتا بندھا رہتا ہے ان سے دعا کرانے اور تعویزلینے میں کیا حرج ہے معمولی سی تو فیس ہے ان کی‘۔ دوست کے اصرار کرنے پر میں ساتھ چل پڑا۔
’آستانۂ کوہستانی‘ ایک جدید بستی میں ایک ماڈرن اور کشادہ بنگلہ تھا جس کے باہر گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ ہمیں جاتے ہی کمرئہ خاص میں لے جایا گیا۔ پیر صاحب کوہستانی میرے دوست کو بڑی عزّت سے ملے اور مجھے (نہ جانتے ہوئے بھی) اس سے بھی زیادہ احترام سے ملے۔ پیر صاحب نے ہمیں سائیڈ پر بٹھاتے ہوئے کہا آپ کے ساتھ آرام سے بات ہوگی۔ چائے اور لوازمات منگوالئے گئے اور ہماری موجودگی میں ہی سائل یا درخواست گذار باری باری آنے لگے۔
پیر صاحب لیپ ٹاپ سامنے رکھّے ٹِک ٹِک کرتے،پرچی یا تعویز نکالتے اور طلبگاروں کو دیتے جاتے۔سب سے پہلے جو صاحب آئے انہوں نے مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’پیرصاحب بجلی کا بل بہت زیادہ آتا ہے۔ کچھ تو کُنڈوں سے بھی کام چل رہا ہے مگر بِل آکردل ہلادیتا ہے۔ اس کا کوئی حل نکالیں‘‘۔ پیر صاحب نے کمپیوٹر پر تعویز ٹائپ کیا اس پر پھونک ماری اور کہا یہ تعویز بجلی کے میٹر پر لٹکادیں فرق پڑجائیگا۔ دوسرے صاحب آئے تو پیرصاحب نے پوچھا ’آپ کی کار پٹرول زیادہ کھاتی تھی فرق پڑا کہ نہیں؟‘وہ کہنے لگے حضورآپ کی ہدایت کے مطابق تعویزپٹرول کی ٹینکی پر رکھا تھا مگر رکھتے ہی جل گیا۔ پیرصاحب نے کہا تعویز یقیناً اپنی حرارت اور طاقت سے جل گیا ہوگا۔پھر اسے ایک نیا تعویز عطا کیا گیااس تاکید کے ساتھ کہ اسے پٹرول میں مکس کرکے ٹینکی میں ڈال دیںفرق پڑجائے گا۔ قریبی مسجد کے امام بھی آئے اور کہا ’’پیر صاحب Password یاد نہیں رہتا ایسا تعویز دیں کہ پاس ورڈ بھول جائے تو بھی لیپ ٹاپ کھل جایا کرے‘‘۔ ایک خاتون نے جو کسی بنگلے میں ملازمہ تھی اور صفائی کا کام کرتی تھی، کہا کہ حضورمیںنے بڑی دفعہ اپنی بیگم صاحبہ سے کہا ہے کہ میں جب پارک میں واک کررہی ہوں تو مجھے بلانے کیلئے SMSکیاکریں لیکن وہ بلانے کیلئے ہمیشہ ملازم بھیجتی ہیں جو اونچی اونچی آوازیں دینی شروع کردیتا ہے جس سے میری بڑی insultہوتی ہے۔ کوئی اچھا سا تعویز دیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو۔ ملازمہ کو تعویز عنایت کیا گیا کہ’’بیگم صاحبہ کے پراندے کے ساتھ باندھنا ہے‘‘۔
ہر عمر کے مختلف خواتین وحضرات آتے رہے اور اپنے مسائل بتاتے رہے۔ ایک نوجوان کو گلہ تھا کہ ’’ہمسائی کو ایس ایم ایس کیا تو اس نے Tweetکردیا جس میں میرے لئے نازیبا القاب استعمال کئے گئے ہیں۔ اس وقت ہمسائی عمران خان بنی ہوئی ہے۔ ایسا تعویز دیں کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن بن جائے‘‘، ایک والد نے آکر کہا ’’بیٹاکنٹرول سے باہر ہورہا ہے بغیر بتائے ہوئے دھرنوں پر چلا جاتا ہے‘‘،ایک صاحب کا کہنا تھا ’’بڑی لیڈ سے جیت کر ایم پی اے بنا ہوں وزارت کا ہو نٹا نہیںملتا تو پارلیمانی سیکرٹری ہی بنوا دیں!!۔ اسے تعویز دیا گیا کہ یہ وزیرِ اعلیٰ کی خاکی بشرٹ کی جیب میں ڈال دینا‘‘۔ ایک خاتون نے آکر کہا جناب’’بَچّی چپ چپ رہتی ہے‘‘، پوچھا گیا بَچّی کی عمر کتنی ہے؟ماں نے بتایا بیس بائیس سال۔’’بی بی آپ بچی کی خواہش کے مطابق اس کی شادی کردیںاور یہ تعویز اس کے موبائل فون کے ساتھ چپکا دیں‘‘۔ ایک پچاس پچپن سالہ خاتون نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا ’’پیر صاحب کوئی تیز قسم کا تعویز دیں خاوند بالکل توجہ نہیں دیتا‘‘۔ پیر صاحب نے پوچھاآپکے کتنے بچے ہیں؟’’جی دس بچّے ہیں‘‘۔’’دیکھیں بی بی! اب بھی آپ کو توجّہ چاہیے.....اب آپ کا خاوند بیچارہ آپ پر توجّہ دے یادس بچے پالنے کیلئے روزی کی تلاش پر توجہ دے۔ آپ کو اب اپنے نہیں بچوں کے حقوق کی فکر ہونی چاہیے‘‘۔ خاتون نے اٹھتے ہوئے کہا پیر صاحب آپ کے پاس تو بڑی امیدیں لے کر آئی تھی آپ نے تو مایوس ہی کیا ہے‘‘۔ ایک اور نوجوان ایک ٹی وی چینل کی خاتون اَینکرکو فیس بک فرینڈ بنانے کا خواہشمند تھا، اسے بھی تعویز عنایت کردیا گیا۔
ایک اور رکنِ اسمبلی آئے۔ ان سے پیرصاحب نے مسئلہ پوچھاتو پہلے ذرا شرمائے پھر بولے ’’حضور جعلی ڈگری کا کیس چل رہا ہے مدد فرمائیں‘‘۔ پیر صاحب نے پوچھا ڈگری کہاں سے لی تھی؟ اس پر وہ مزید جھینپ گئے پھر کہنے لگے ٹھہر جائیں ابھی بتاتاہوں۔ جیب سے کاغذ نکالااور پڑھ کر یونیورسٹی کا ایک ایسا نام لیا جسے سن کر وہ بھی اور پیر صاحب بھی ہنس پڑے۔ پھر بولے’’ لیکن جناب اسے جعلی ثابت کرنے کیلئے میرے مخالف کے پاس ثبوت کوئی نہیں ہے‘‘۔ اسے بھی تعویز عطا کیا گیا۔
ایک بیوروکریٹ نے آکر بتایا کہ اس کے خلاف نیب میں کیس چل رہا ہے’’ کیس تو جھوٹا ہی ہوگا ناں؟‘‘ پیر صاحب نے پوچھا ’’جناب نیب والے ثابت کچھ نہیں کرسکتے‘‘ افسر نے جواب دیا۔ یہ دوتعویز لے جائیںایک خود پی لیں دوسرا جج کی میز تلے رکھ دیں۔ ایک اور سیاستدان آیا جسے شکایت تھی کہ ’ٹی وی اینکر جب اسے بلاتا ہے تو پوراوقت نہیں دیتا زیادہ وقت خودبولتا ہے اور سوال کی بجائے تقریر کرتا ہے۔
ایک یورپ پلٹ سوٹڈبوٹڈ شخص کا کہنا تھا ’’پارٹی فنڈبھی خاصہ دے چکا ہوں مگر ٹکٹ کا ابھی تک وعدہ نہیں ہوا‘‘۔اس کے بعد ایک برقعہ پوش خاتون آئی جب بولی تو آواز مردانہ تھی۔ اس نے کہا پیرصاحب ایسا تعویز دیں جو اسلام آباد کے ڈی چوک پر پھینکتے ہی دھرنے کے شرکاء بھاگ کھڑے ہوں اور اسلام آباد خالی کردیں۔ میں نے کہاکہ یہ مسلم لیگ (ن)کی کوئی خاتون ایم این اے ہیں۔میرے دوست نے کہا مجھے تو یہ کوئی اسلام آباد کا پولیس افسر لگتا ہے جو لوگوں سے چھپ کرآیا ہے۔ جب برقعہ تھوڑا سا سرکا تو نظر آگیا کہ وہ وفاقی کابینہ کے ایک معروف وزیر تھے۔ پھر ایک اور مردانہ آواز والی برقع پوش خاتون آگئیں اور پیر صاحب سے درخواست کی کہ’’ایسا تعویز دیں کہ یہ سلسلہ کچھ دیر اور چلے‘‘۔ پیر صاحب نے پوچھا کونسا سلسلہ ؟ برقع پوش نے کہا ’جناب ڈی چوک والا‘۔ مگر وہ کیوں ؟پیر صاحب حیران ہوئے۔ ’’حضور اس لئے کہ ہمارے معاملات بہت اچھے جا رہے ہیں ۔ کوئی فائل نہیں رک رہی ۔ چند فائلیں، کچھ بڑے پراجیکٹ اور کچھ بیرون ملک تعیناتیاں رہ گئی ہیں، وہ ہو جا ئیں تو پھر چاہے دھرنا اُٹھ جائے‘‘ ۔ مگر آپ ہیں کون بھائی ؟ پیر صاحب نے برقع ہٹایا تو اندر سے ہٹا کٹا نوجوان نکلا۔ پوچھنے پر اس نے بتا دیا کہ ’’ میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ صاحب کا سیکرٹری ہوں‘‘ ۔پھر کہنے لگا ’’حضور! شاہ صاحب نے آپ کیلئے خصوصی سلام اور نذرانہ بھیجا ہے‘‘۔ دونوں کو علیحدہ علیحدہ رنگوں کے تعویز دئیے گئے۔ حیران کن بات یہ ہوئی اس روز کچھ بہت بااثر وزیروں اور بیورو کریٹوں کے نمائندے بھی دھرنا جاری رہنے کے تعویز لینے آئے تھے ان سے پیر صاحب نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے صاف بتا دیا کہ’’ ہماری کارکردگی بے نقاب ہوگئی ہے اس لئے ہمیں یقین ہے کہ وزیر اعظم دھرنوں سے فارغ ہوتے ہی ہمیں فارغ کردیں گے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ یہ دھندا ابھی چلے تاکہ ہمارا دھندہ بھی چلتا رہے‘‘۔
ان سے فارغ ہوکر پیر صاحب نے میرے دوست کو بھی تعویز دئیے بلکہ مہینے بھر کی اکٹھی خوراک دے دی۔ کچھ تعویز وزیر اعلیٰ اور کچھ ان کے سٹاف کیلئے تھے۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا کہ پیر صاحب کا چہرہ بڑا جانا پہچانا ساہے۔ اٹھتے ہوئے میں نے کہہ ہی دیا کہ لگتا ہے آپ کو کہیں دیکھا ہواہے پھر میں نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا آپ کا تعلق ایبٹ آباد سے...... پیرصاحب بڑے پریشان ہوئے انہوں نے میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ’لگتاہے آپ نے مجھے پہچان لیا ہے۔ سر! میں محمد رفیق ہی ہوں آپ کا ماتحت آپ ایبٹ آباد میں ڈی آئی جی تھے تو میں بھی وہاں پولیس میں ہوتا تھا۔اب میں نے پوری طرح پہچانتے ہوئے کہا ’’اوئے توں تے فیقا حوالدار ایںاور تم کرپشن کے الزام میں ڈسمس ہوگئے تھے‘‘۔ اب ’’پیر کوہستانی‘‘ نے منت کرتے ہوئے کہا ’’سرجی! خداکیلئے کسی سے بات نہ کیجئے اچھا کاروبارچل رہا ہے، آپ کے دوست کو حصّہ دار رکھنے کیلئے ۔۔۔۔تیار۔۔۔
'shut up you nonsense'میں نے ڈانٹا تو کہنے لگا:
’’سر جی آپ کہیں گے تو کاروبار wind-up کرکے دو تین دن تک پہاڑوں پر واپس چلاجاؤنگا۔ خدا کیلئے معاف کردیجئے‘‘۔ میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بہتر ہے یہ فوراً پہاڑوں پر ہی چلا جائے......عبادت اور ریاضت کیلئے!!!