محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی برطرفی (اگست 1990) کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں جناب ولی خاں چارسدہ / مردان کی اپنی آبائی نشست پر جمعیت علماء اسلام کے مولانا حسن جان سے ہار گئے۔اخبار نویسوں کے استفسار پرکہ آپ کیوں ہارگئے؟ خاں صاحب کا مختصر اور سادہ سا جواب تھا ، ’’اس لئے کہ میرے ووٹ مخالف اُمیدوار کے ووٹوں سے کم تھے‘‘۔ بزرگ سیاسی رہنما کے سرخ پوش بزرگوں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن قیام پاکستان کے بعد پاکستان سے وفاداری کی کسی بھی آزمائش میں اس کا کردار کسی سکہ بند مسلم لیگی سے کم نہ تھا۔ فوجی اور سول آمریتوں کے خلاف اس کی جدوجہد بھی تاریخ کا حصہ تھی۔ اب(1990کے الیکشن میں) اپنی شکست پر اس کا تبصرہ ایک جمہوری لیڈر کی شان اور وقار کے عین مطابق تھا۔ عوام کے فیصلے کو قبول کرنے میں اس نے لمحہ بھر کا تامل کیا نہ کسی رنج اور ملال کا شکار ہوا۔ اب اسی باوقار جمہوری رویّے کا مظاہرہ جاوید ہاشمی نے کیا، رزلٹ آنا شروع ہوئے تو میڈیا والوں کے استفسار پر اس نے کہا، میں ہار گیا، تو جیتنے والے کو مبارکباد دوں گا۔ گنتی مکمل ہوئی، اپنی شکست پر اس کا کہنا تھا ، میں عامر ڈوگر کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔ اِدھر اس کے حریفوں کا رویہ کیا تھا، اسلام آباد میں کنٹینر سے آواز آئی! ’’ ملتان نے بتا دیا، عزت کس کو اور ذلت کس کو ملی‘‘۔ ملتان میں اس کے روایتی حریف کا کہنا تھا، ملتان کے ماتھے پر لگنے والا داغ دُھل گیا۔ (اشارہ تحریکِ انصاف سے ہاشمی کی علیحدگی کی طرف تھا)۔ہاشمی ہار کیوں گئے؟ اور اس سے پہلے یہ سوال کہ کیا انہیں یہ الیکشن لڑنا چاہیے تھا؟ انہیں اپنے چیئرمین کی دھرنا مہم جوئی اور اس دوران پرائم منسٹر ہاؤس پر دھاوا بولنے کے فیصلے سے اختلاف ہوا۔ وہ اِسے جمہوریت پر حملہ سمجھتے تھے۔ خود چیئرمین صاحب پسِ پردہ معاملات کی کئی گفتنی و ناگفتنی کہانیاں کور کمیٹی کے اجلاسوں میں سناتے رہے تھے۔ ہاشمی نے مئی 2013 کا الیکشن تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر لڑا تھا۔ دھرنا مہم کے دوران ’’پارٹی پالیسی‘‘ کے تحت قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ بھی لکھ دیا اور پھر شاہ محمود قریشی وغیرہ کے برعکس اسے منطقی انجام تک بھی پہنچا دیا۔ ایک رائے یہ تھی کہ ہاشمی اب ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ خود ان کا ارادہ بھی یہی تھا، وہ علاج کے لئے چین جانا چاہتے تھے لیکن بعض دوستوں کی رائے اس کے برعکس تھی۔ پارلیمنٹ میں آئین کے تحفظ اور جمہوریت کے تسلسل کے حق میں یک زبان تمام سیاسی جماعتیں بھی ہاشمی کی حمایت کا تاثر دے رہی تھیں چنانچہ وہ میدان میں اُتر آئے۔ انتخابی عمل کا آغاز ہوا، تو یوسف رضا گیلانی نے ڈاکٹر جاوید صدیقی کو پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کے طور پر میدان میں اُتار دیا۔ شاہ محمود قریشی کی حکمت ِعملی کے تحت تحریک ِانصاف نے عامر ڈوگر کو گود لے لیا۔ (جو چند روزپہلے تک پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا جنرل سیکریٹری تھا اور اب آزاد اُمیدوار کے طور پر میدان میں اُترا تھا۔ اس نے مئی 2013 کا الیکشن پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لڑا تھا اور 20719 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا تھا۔ تب جاوید ہاشمی تحریکِ انصاف کے اُمیدوار کے طور پر 83640 ووٹوں کے ساتھ جیتے تھے، شیخ طارق رشید مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر 73898ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے)۔ اب عامر ڈوگر تحریک ِانصاف کا ’’غیرسرکاری‘‘ اُمیدوار تھا۔ وہ 10اکتوبر کے جلسے میں عمران خاں کے ساتھ کنٹینر پر بھی موجود تھا۔ شاہ محمود قریشی اس کے لئے بھرپور مہم چلا رہا تھا۔ اِدھر جاوید ہاشمی آزاد اُمیدوار کے طور پر میدان میں موجود تھا۔ مسلم لیگ(ن) اس کی کامیابی کی خواہاں تو تھی اور مقامی کارکن اس کے لئے کام بھی کر رہے تھے لیکن اس کی انتخابی مہم کا وہ زور وشور ، وہ رنگ ڈھنگ اور وہ پرجوش اور پرزور فضا نہیں تھی جو تحریکِ انصاف نے عامر ڈوگر کے لئے پیدا کر دی تھی، جماعت ِاسلامی نے غیر جانبداررہنے کا فیصلہ کیا جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے پیپلز پارٹی کے جاوید صدیقی کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ جاوید ہاشمی کیوں ہارگئے؟ وہی ولی خاں والا جواب، اس لئے کہ مخالف اُمیدوار کے ووٹ زیادہ تھے۔ تحریک ِانصاف کی لہر نے کام دکھا دیا تھا۔ جاوید ہاشمی اور اس کی کامیابی کی خواہش مند مسلم لیگ (ن) یہاں کوئی بڑی لہر نہ اُٹھا سکی اور چھوٹی موٹی کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم پر ہی اکتفا کیا گیا۔
دی نیوز اور جنگ کے تازہ شمارے میں جناب حامد خاں کا تازہ انٹرویو زیرنظر ہے، تحریکِ انصاف کے بُرے دنوں میں وہ عمران خاں کے دست ِراست سمجھے جاتے تھے۔ تب پارٹی میں سینئر نائب صدر کا عہدہ بھی ہوتا تھااوروہ اس عہدے پر برسوں متمکن رہے۔ 30 اکتوبر 2011 کے سونامی جلسے کے بعدکی تحریکِ انصاف میں ان کا عہدہ کیا ہے؟ ہمارے علم میں نہیں۔ البتہ اتنا یاد ہے کہ وہ تحریک کے انٹرا پارٹی الیکشن میں چیف الیکشن کمشنر تھے اور انہوں نے جنرل سیکریٹری کے عہدے کے لئے جناب جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیتے ہوئے ، ان کے کاغذات مسترد کر دیئے تھے(جنہیں عمران خان نے بعد میں اپنے خصوصی اختیارات کے تحت جنرل سیکریٹری نامزد کر دیا)۔ حامد خاں لاہور کے حلقہ 125سے خواجہ سعد رفیق کے مدمقابل تھے۔ یہ اِن 4حلقوں میں شامل تھا جنہیں کھولنے کا عمران خاں مطالبہ کیا کرتے تھے۔ اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے اپنے چیئرمین کے الزامات کی تردید کی ہے اور چیئرمین صاحب کی صفائی میں یہ دلچسپ دعویٰ بھی کیا ہے کہ موصوف نے چیف صاحب پر کبھی یہ الزام عائدہی نہیں کیا کہ انہوں نے ریٹرننگ افسروں کو دھاندلی کا حکم دیا تھا۔ اسی انٹرویو میں حامد خاں صاحب نے حلقہ 125کے حوالے سے بعض دلچسپ دعوے بھی کئے ہیں، مثلاً یہ کہ الیکشن کے دن ان چند پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ کی اجازت ہی نہیں دی گئی، جہاں مسلم لیگ(ن) کمزور تھی۔ کچھ حلقوں میں جہاں مسلم لیگ (ن) کمزور تھی، پولنگ کے عمل کو سست کر دیا گیا، کئی پولنگ سٹیشنز سے تحریکِ انصاف کے پولنگ ایجنٹس کو بے دخل کر دیا گیا اور انہیں ووٹنگ کی نگرانی کی اجازت نہ دی گئی۔ حامد خاں صاحب کا شمار ملک کے ممتاز قانون دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک صاف ستھرا پروفیشنل کیریئر رکھتے ہیں لیکن زیرنظر انٹرویو میں ان کے دعوے ان کی سنجیدہ اور باوقار شخصیت کے شایانِ شان نہیں۔ حلقہ 125کسی دور افتادہ علاقے میں نہیں تھا، یہ لاہور شہر کے اہم ترین حلقوں میں شمار ہوتا تھا، جس پر الیکشن پراسس پر نظر رکھنے والے مبصرین اور میڈیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ پولنگ کے 8گھنٹوں کے دوران اور اس کے بعد بھی 40 گھنٹے تک حامد خاں کی طرف سے کسی سطح پر کوئی تحریری شکایت سامنے نہ آئی ۔ (انہوں نے الیکشن ٹربیونل کے روبرو بھی یہ بات تسلیم کی)۔ کیا یہ ممکن تھا کہ مسلم لیگ کے لئے کمزور پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ کی اجازت ہی نہ دیئے جانے ، بعض پر پولنگ کے عمل کو سست رکھنے اور کئی پولنگ اسٹیشنز سے تحریکِ انصاف کے پولنگ ایجنٹس کی بے دخلی کے واقعات ہوئے ہوں لیکن نہ خاں صاحب نے اس کی شکایت کی ہو، نہ یہ میڈیا کے علم میں آئے ہوں۔ اس حلقے میں تقریباً اڑھائی سو پولنگ اسٹیشن اور 700 کے لگ بھگ پولنگ بوتھ تھے، ہر پولنگ بوتھ پر پی ٹی آئی کا پولنگ ایجنٹ موجود تھا جس کے سامنے پولنگ اور پھر کاؤنٹنگ ہوئی اور رزلٹ الیکشن کمیشن کے فارم پر باقاعدہ دستخطوں کے ساتھ پولنگ ایجنٹس کو فراہم کیا گیا۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ کسی پولنگ بوتھ پر کوئی ایک بیلٹ پیپر چیلنج نہ ہوا۔ حامد خاں صاحب الیکشن ٹربیونل میں گئے تو وہاں تاخیری حربے شروع کردیئے۔ ایک موقع پر اُن کے وکلاجج صاحب کی توہین پر اُتر آئے، جس پر انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کیس سے علیحدگی اختیار کر لی کہ اپنے پورے عدالتی کیریئر کے دوران انہیں دباؤ کے ایسے حربوں کا سامنا نہیں ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر کے حکم پر یہ کیس فیصل آباد ٹربیونل میں منتقل ہوگیااور وہاں بھی خاں صاحب کے وکلاکی طرف سے تاخیری حربے جاری رہے۔ جو بات خاں صاحب اور ڈیفنس کے لالک چوک میں دھرنا دینے والی ایلیٹ کلاس کو سمجھ نہیں آتی وہ یہ کہ یہ حلقہ صرف ڈیفنس پر مشتمل نہیں، اس حلقےکے 4,29,054ووٹوں میں ڈیفنس کے ووٹ صرف 50ہزار کے لگ بھگ تھے، اِن میں سے تقریباً 21ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے، ساڑھے تیرہ ہزار ووٹ حامد خاں نے اور ساڑھے سات ہزار، خواجہ سعد رفیق نے حاصل کئے۔ ڈیفنس کا شمار شہر کے پوش علاقوں میں ہوتا ہے(مین کینٹ کو بھی اسی کیٹیگری میں شامل کرلیں جہاں 30ہزار ووٹ ہیں) لیکن اسی حلقے میں مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم آمدنی والے دیگر طبقات بھی موجود ہیں جن کے ووٹوں کی تعداد پوش علاقے کے ووٹوں سے چار گناہوگی اور تحریکِ انصاف کی بدقسمتی کہ انتخابی قواعد کے مطابق پسماندہ بستیوں کے مکین کا ووٹ بھی پوش علاقوں کے ووٹ کے برابر ہے۔ تحریکِ انصاف شاید اسی کو دھاندلی خیال کرتی ہے تو کیوں نہ ایلیٹ کلاس کے ایک ووٹ کو عام آدمیوں کے کم از کم دو یا تین ووٹوں کے برابر شمار کیا جائے؟