یہ میاں سہیل انور جیوے کا، کی مہربانی تھی کہ انہوں نے ستر اسی راوینز کی بھرپور میزبانی کی، میاں صاحب کی اس ’’دعوت شیراز‘‘ میں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی، سب کے نام یہاں نہیں لکھے جاسکتے صرف ڈر کے مارے شیخ منصور کا نام لکھ رہا ہوں کہ ان کے پاس سب کا ریکارڈ ہے اور شیخ صاحب ’’ریکارڈ‘‘ لگانا بھی خوب جانتے ہیں۔
میرے لیے اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ شریک تھے۔ نواب صاحب سے ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نواب صاحب کا رنگ روپ وہی ہے، وہی ترکی ٹوپی، واسکٹ، ہاتھ میں سگریٹ اور لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ، وہی ذوق، شوق آوارگی مگر اپنی سیاست پر قائم۔
اوکاڑہ میں نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کی شاعری سننے کو ملی۔ اس شاعری میں اگرچہ ’’ٹاکی‘‘ کا اضافہ ہوگیا ہے لیکن پرانا مزہ برقرار ہے، اسی لئے اس دن ہنسنے کا خوب موقع ملا، بعض اشعار تو رلا دینے والے تھے۔ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ آج سے پچیس تیس سال پہلے جو باتیں کہا کرتے تھے وہ سچ ثابت ہورہی ہیں مثلاً ان کا سلوگن تھا۔ ’’.....لیڈر بے ضمیر، عوام بے وقوف.....‘‘حالات نے ثابت کیا کہ واقعی یہاں لیڈر ضمیر فروشی کرتے ہیں اور عوام ہر مرتبہ بے وقوفی کر جاتے ہیں۔ ان کے کارڈ پر ایک پرانا سلوگن آج بھی درج ہے کہ ’’.....فل ٹائم سیاست بطور بزنس.....‘‘ حالات نے یہ بھی ثابت کیاکہ لوگ سیاست ایک بزنس کے طور پر کرتے ہیں اور اس قدر امیر ہو جاتے ہیں کہ انہیں دولت چھپانا پڑتی ہے، دولت چھپانے کیلئے انہیں آف شور کمپنیاں بنانا پڑتی ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کس قدر دور اندیش سیاستدان ہے، اسے برسوں پہلے آنے والے حالات کی کتنی خبر تھی، وہ اسی اور نوے کی دہائی میں نوازشریف سمیت کئی بڑے سیاستدانوں کے خلاف الیکشن لڑتا تھا۔ شہباز شریف سے تو ڈاکٹر صاحب کا انتخابی ٹکرائو ’’بازار‘‘ ہی میں ہوتا تھا، اس زمانے میں ڈاکٹر امبر شہزادہ دن کو گورنمنٹ کالج لاہور میں نظر آتے تھے سرخ ترکی ٹوپی (جو کالج کے کوٹ سے مطابقت رکھتی تھی) میرون کلر کا کوٹ یا واسکٹ، سرخ مفلر، ہاتھ میں سگریٹ کا میرون یعنی عنابی پیکٹ، لبوں پر مسکراہٹ اور حسین و رنگین شاعری ان کی شخصیت کا خاصا ہوتا تھا۔ شام کو نواب صاحب مال روڈ کو شرف بخشتے تھے اور پھر رات کو بازار حسن میں ان کی انتخابی مہم ہوتی تھی، مہم کے آخر میں یعنی رات کے آخری پہروں میں یہ انتخابی قافلہ وحید پہلوان کے ڈیرے پر ہوتا تھا۔ نواب صاحب الیکشن ہار گئے، حسن والوں نے شہباز شریف کو چن لیا۔ نواب صاحب ہر مرتبہ صدارتی الیکشن لڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں کبھی تجویز کنندہ نصیب نہیں ہوا، اسی لئے وہ برسوں پہلے ’’عالمی ضمیر فروش‘‘ کانفرنس کا انعقاد کیا کرتے تھے، ڈاکٹر صاحب اس کانفرنس میں تمام ضمیرفروش سیاستدانوں کو ایوارڈز سے نوازتے، یہ الگ بات ہے کہ کوئی بھی سیاستدان اپنا ایوارڈ وصول کرنے نہ آتا، آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایوارڈ محض ’’اعلانیہ‘‘ ہونے کا اعزاز پاتے۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے نواب صاحب گدھے پر سوار ہوکر آتے تھے۔ ان کانفرنسوں کا میڈیا میں بھی بڑا چرچا ہوا کرتا تھا۔
اس زمانے میں بھی نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کے ہاتھوں میں وزیٹنگ کارڈز ہوتے تھے جو آج بھی ہیں ان کارڈوں پر لکھا ہوا ہے ’’.....متبادل وزیراعظم.....‘‘ نیچے ان کا نام لکھا ہوا ہے اور آخر میں پارٹی کا نام ہے۔
خواتین و حضرات! نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کی پارٹی کا نام ’’آپ جناب سرکار پارٹی‘‘ ہے۔ اس کے پیچھے ایک عشقیہ داستان ہے۔ نواب صاحب کا اصل نام خالد محمود ہے، خالد محمود لائل پور یعنی فیصل آباد کا رہنے والا ہے۔ ایف ایس سی میں گھر والے بضد تھے کہ لڑکا سائنس پڑھے مگر خالد محمود کو بیالوجی سے اتنی نفرت تھی کہ اس نے ایک پوری نظم اس مضمون کے خلاف لکھ ڈالی، وقت نے انہیں فیصل آباد سے لاہور کی طرف روانہ کیا اور جب اس نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے فلاسفی میں داخلہ لیا تو اپنی ایک کلاس فیلو سے عشق ہوگیا، اسی دوران خالد محمود نے اپنا نام نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ رکھ لیا، عشق میں روایت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس لڑکی کا نام ظاہر نہ ہونے دیا اور اسے ’’آپ جناب سرکار‘‘ پکارنا شروع کردیا پھر اسی نام سے سیاسی پارٹی بنائی جو ہنوز قائم ہے، عشق کے ابتدائی چند مہینوںکے بعد ہی امبر شہزادہ کو پتہ چل گیا تھا کہ جس سے عشق ہوا ہے اس کے دو بچے ہیں اور وہ ایک طلاق یافتہ خاتون ہے مگر ڈاکٹر صاحب نے اسے سند یافتہ سمجھ کر اپنے عشق کو جاری رکھا، یہ عشق آج تک جاری و ساری ہے مگر اس کے بے ثمر ہونے کی خبر وہ خود دیتے ہیں۔
نواب ڈاکٹر امبرشہزادہ دراصل اپنی کئی حرکتوں سے سیاستدانوں پر طنز کررہا ہوتا ہے مثلاً اس کے کارڈ کی پشت پر ایک عبارت تحریر ہے کہ ’’.....حامل کارڈ ہذا یقیناً احمق ہے، بے وقوف ہے، حتیٰ کہ براڈ مائنڈڈ بھی ہے اور آپ جناب سرکار کی خدمت میں حاضر ہوچکا ہے، مسئلے زبانی عرض کرنے ہی والا ہے، بھرپور تعاون فرما کر باضمیر ہونے کا ثبوت فراہم کریں، آپ کا نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ.....‘‘
اس مرتبہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ یہ آپ نے کارڈ کے پیچھے کیوں لکھا ہوتا ہے تو نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ بولا’’.....دراصل اس ملک کے سیاستدان جب کسی عام آدم کو رقعہ دیتے ہیں تو ان کے اندر یہی ہوتا ہے کہ ہم ایک احمق اور بےوقوف کو رقعہ دے رہے ہیں کیونکہ سیاستدان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں جب تک پاکستانی عوام بے وقوف بنے رہیں گے اس وقت تک یہ ضمیر فروش سیاستدان حکومت کرتے رہیں گے، میں تو لوگوں سے کہتا ہوں کہ عقل مند بن جائو، ان ضمیر فروشوں کو نہ چنو، میرا فلسفہ سیاست ہی الگ ہے مثلاً میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک سے کرپشن کبھی ختم نہیں ہوسکتی، اس کی مقدار کم ہوسکتی ہے، کمی بیشی ہوسکتی ہے مگر مکمل خاتمہ نہیں ہوسکتا، میں خود کو اسی لیے ’’نیم کرپٹ‘‘ سیاستدان کے طور پر متعارف کروا رہا ہوں کیونکہ ہم ضرورت کے تحت کرپشن کریں گے جبکہ موجودہ حکمران خواہش کے تحت کرپشن کرتے ہیں، مجبوری اور خواہش میں فرق ہوتا ہے، ضرورت کے تحت تو کرپشن جائز ہے مگر خواہش کے تحت نہیں.....‘‘
کیا خیالات ہیں خود کو متبادل وزیراعظم پیش کرنے والے کے، اس ہستی یعنی ڈاکٹر امبر شہزادہ کے حسین خیالات میں سے ایک شعر جو ان کے فلسفہ سیاست کا ترجمان ہے ؎
نیم کرپٹ آوے گا
ملک ترقی پاوے گا
آپ اگر نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ کی گفتگو سنیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ وہ پورے نظام کو کس طرح بھگو بھگو کر جوتے مارتا ہے، وہ اپنی شاعری میں بھی کوئی لمحہ نہیں گنواتا کہ اپنے عشق یا فلسفہ سیاست کو بھول جائے اسی لیے وہ کہتا ہے کہ؎
میرا عشق اے سدا بہار سجناں
تیرا حسن نئیں سدا بہار سجناں
اور پھر اپنے سیاسی فلسفے کو پیش کرتے ہوئے نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ یوں مخاطب ہوتا ہے کہ؎
تھوڑی رشوت کام زیادہ
وزیراعظم امبر شہزادہ
جو بچے گا، آدھا، آدھا
وزیراعظم، امبر شہزادہ
.