• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طویل نہ سہی لیکن گاڑیوں کی قطاریں تو تھیں، بیشتر کاروں پر سبز رنگ کی نمبر پلیٹ تھی جو خاموشی سے یہ متنبہ کرتی تھی کہ میں سرکاری افسر کی سواری ہوں تمام رُکاوٹوں سے بے نیاز یا پھر نصف کروڑ اور اس سے زیادہ مالیت والی پر تعیش کالے رنگ کے شیشوں والی بلٹ پروف نئے ماڈل کی جیپیں جو کسی بھی قطار میں کھڑی نہیں ہوتیں۔ دو تین گاڑیوں پر ایم این اے اور سنیٹرز کی نمبر پلیٹس بھی آویزاں تھیں لیکن اس کے باوجودیہ تمام گاڑیاں قطار میں رینگ رہی تھیں اور کلیئرنس کے بعد آگے بڑھتی تھیں یہ شاہراہ دستور تھی جو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہائوس سے اسلام آباد کی شہری آبادی کی طرف جانے کا درمیانی راستہ تھا اور جہاں دو ماہ سے دو دھرنے دھرے ہوئے تھے۔ کلیئرنس پوائنٹ پر پہنچے تو عجیب منظر تھا دھرنے والوں نے ہی عارضی سی رُکاوٹیں کھڑی کرکے اسے چیک پوسٹ کا نام دے دیا تھا اور ایک نوجوان ہاتھ میں ڈنڈا تھامے تن تنہا سکیورٹی کلیئرنس کی بھاری ذمہ داری ادا کررہا تھا، عمر تو بمشکل 30سال تھی لیکن چہرے پر حالات کی سختی کہیں زیادہ بڑھی ہوئی شیو، سرخ آنکھیں ایک میلی سی ٹی شرٹ پر ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ‘ سینے پر اپنے قائد کی تصویرکا اسٹیکر اور پائوں میں چپلیں۔انگلی کے اشارے سے شیشہ نیچے کرنے کے حکم کی تعمیل کی تو بدبو کا ایک بھبکا سا اندر آگیا،شناختی کارڈ دکھائو، عرض کیا، حضور فرائض منصبی کے سلسلے میں پارلیمنٹ ہائوس گئے تھے اور اب واپسی ہے۔پھر یہی بات ’’سلیس پنجابی‘‘ میں دُہرائی اور ادارے کا کارڈ بھی دکھایا لیکن تسلی نہ ہوئی، حکم ہوا کہ شناختی کارڈ دکھائو، کارڈ دکھایا تو تصویر سے چہرہ ملایا پھر کہیں آگے جانے کی اجازت ملی۔گزشتہ کئی مہینوں سے اسی طرح کے بے شمار مناظر اور واقعات کا سامنا شاہراہ دستور سے گزرنے والوں کا معمول رہا۔ جن میں ارکان پارلیمنٹ‘ بیورو کریٹس سفید کپڑوں میں اعلیٰ انتظامی افسران اور دیگر خاص و عام شامل تھے۔ چھوٹے آدمی کے پاس بڑا اختیار آجائے اوراسے یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اس کا مستحق نہیں تو وہ اپنی محرومیوں کا ازالہ انتقام کی شکل میں لیتا ہے،چنانچہ ان سکیورٹی انچارجوں کے ہاتھوں بعض معززین اور حکام کے ساتھ بد تمیزی کے بھی واقعات پیش آتے رہے۔ جبکہ ایسے ہی کسی ڈنڈا بردار خود ساختہ سکیورٹی انچارج نے اعلی حکام اور شریف شہریوں کی نہ صرف گاڑیوں کی چیکنگ ہی نہیںبلکہ ’’جامہ‘‘ تلاشی بھی لی جاتی تھی۔جس ملک کے دارالحکومت میں یہ صورتحال ہو سیاسی استحقاق اور جمہوری آزادی کے نام پر قانون سے مذاق کیا جائے تو اُسکی گلیوں محلوں میں کیا ہورہا ہوگا۔
یہ وہی شاہراہ دستور ہے جہاں کچھ سال قبل 23مارچ کو ’’یوم پاکستان‘‘ کی شاندار پریڈ ہوا کرتی تھی، سیاسی اور عسکری قیادت مسلح افواج کے دستوں سے سلامی لیا کرتی تھی۔ وہ منظر کون بھول سکتا ہے جب S.S.G کے جوان سینہ تانے‘ پنجوں کے بل ایک پروقار‘ شاندار اور والہانہ انداز سے پریڈ میں نمودار ہوتے، سلامی کے ڈائس کے سامنے پہنچ کر سر کو جنبش دیتے اور فضا میں ایک ساتھ نعرہ مستانہ بلند ہوتا ’’اللہ ہو‘‘ تو یہ نعرہ اور منظر پوری فضا میں ایک ارتعاش سا پیدا کردیتا اور ہزاروں شرکاء بھی اس نعرے میں اپنے جوانوں کے ہم آواز ہو۳جاتے۔ تالیوں سے پوری فضا گونج اُٹھتی‘ لوگ اپنی نشستوں سے اُٹھ کر عقیدت و احترام کے ساتھ اُس وقت تک تالیاں بجاتے رہتے ’’من جانبازم‘‘ کا ماٹو لئے یہ سجیلے جوان جب تک منظر پر موجود رہتے‘ پھر آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں کی ثقافت کا مظاہرہ خوبصورت فلوٹس کے ذریعے ہوتا اور رات کو دیرگئے تک اس شاہراہ دستور پر جسے ’’پریڈ ایونیو‘‘ کا نام دے دیا جاتا تھا۔ بچے، بوڑے، جوان ہاتھوں میں قومی پرچم اور چہروں پر چاند ستارہ بنائے ملی نغموں پر جشن کے انداز میں یوم پاکستان مناتے، پوری پریڈ ایونیو رنگ و نور اور خوشبوئوں سے مہک اُٹھتی اور،یہاں کے خوبصورت مناظر 23مارچ کی مناسبت سے چمکتے دمکتے اور شاداں چہروں سے پریڈ ایونیو پر ’’شانزے لیزے‘‘ کا گماں ہوتا لیکن پھر کیا ہوا۔ دہشت گردی کے خدشے کے باعث یہ سلسلہ ترک کرنا پڑا اور یوم پاکستان کی تقریبات کھلے مقام کی بجائے بند ایوانوں میں ہونے لگیں۔تحریک انصاف کا دھرنا تو اب سیاسی سے زیادہ ’’ثقافتی پروگرام‘‘ بن چکا ہے۔ دھرنے میں تحریک انصاف کے شرکاء سے زیادہ اب ان شرکاء کو دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم خیمہ بستی والوں کا دھرنا ختم ہو چکا ہے، اس دھرنے کا حاصل وصول کیا ہوگا۔ اس بارے میں زیادہ بہتر تو خود علامہ صاحب ہی جانتے ہونگے جو اپنے دھرنوں اور جلسوں میں وضاحتیں کررہے ہیں کہ دھرنے ختم کئے جانے کی وجہ کسی سے کوئی ’’معاہدہ یا ڈیل‘‘ ہرگز نہیں ہو گی۔ بہرکیف علامہ صاحب کا دھرنا ختم ہونے سے انتظامیہ نے ہی سکھ کا سانس نہیں لیا بلکہ اسلام آباد کے شہری بھی اب غیر متعفن فضا میں سانس لے رہے ہیں اور کیپٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے دو ماہ سے پھیلا گند سمیٹنا شروع کردیا ہے، کچھ سمٹ گیا ہے اور کچھ ابھی باقی ہے، اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر پھیلا گند تو آنے والے چند دنوں میں سمٹ ہی جائیگا لیکن جمہوریت اور انقلابی نعروں کے نام پر جو افراتفری، سیاسی انتشار کیساتھ ساتھ بدعنوانی، اقرباء پروری، ناانصافی کا جو گند پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے نجانے وہ کب صاف ہوگا‘ اور کون کرےگا؟
ملک بھر میں سیاسی جلسوں کا ہجوم عروج پر ہے اور مبینہ طور پر ہر جلسے میں لاکھوں کا اجتماع ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ایسےاشارے مل رہے ہیں کہ کم ازکم حکومتی حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں حکمران طبقے کے اوسان بحال ہورہے ، خطرات اگر ختم نہیں بھی ہوئے تو خاصی حد تک کم ضرور ہوئے ہیں تاہم خدشات ابھی باقی ہیں۔ وزیراعظم نے دفاعی طرز عمل میں اب تبدیلی کی ہے اور ماضی کے مقابلے میں وہ قدرے پراعتماد دِکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ پنجاب سمیت بعض وزراء کیخلاف قتل کی ایف آئی آر کی معطلی سمیت بعض دیگر الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر بھی حکومتی زعماکو ریلیف ملا ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے غیریقینی صورتحال کے باعث خدشات کی جو فضا بنی ہوئی تھی وہ اب بتدریج دھیمی پڑتی نظر آرہی ہے، حکومت کے وہ حلیف جو مصلحتاً یا تو خاموش تھے یا پھر کمزور لہجے میں حکومت کی حمایت ذومعنی لفظوں میں کررہے تھے، اب آہستہ آہستہ حکومت کی حمایت میں بے باک ہو رہے ہیں اور وہ وزراء جو متوقع صورتحال کے پیش نظر احتیاط کا مظاہرہ کر رہے تھے اب وہ بھی حکومت کے مخالفین پر بیانات اور تنقید کے تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں لیکن دانندگان راز کا حکومت کو اب بھی یہی مشورہ ہے۔
’’جاگدے رہنا‘ ساڈے تے نہ رہنا‘‘۔۔۔
وزیراعظم نے عنان اقتدار سنبھالنے کے کچھ دنوں بعد ہی قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اپنے ارکان پارلیمنٹ جن میں تمام وزراء بھی شامل تھے فیصلہ کن لہجے میں کہا تھا کہ وہ ہر تین ماہ بعد اپنے وزراء اور اُن ارکان کی جنہیں حکومتی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں، کارکردگی کا جائزہ لیں گے اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی یہ فیصلہ کیا جائیگا کہ انہیں موجودہ ذمہ داریوں پر بحال رکھا جائے یا ناقص کارکردگی کی بنیاد پر یہ ذمہ داریاں واپس لےلی جائیں۔ وزیراعظم نے زور دیکر کہا تھا کہ اسی بنیاد پر وزراء کے نہ صرف قلمدان تبدیل کئے جا سکتے ہیں بلکہ وہ سوچ لیں کہ اُن سے یہ وزارتیں واپس بھی لی جاسکتی ہیں لیکن ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے اور وہ تین مہینے ابھی تک نہیں آئے، البتہ اب حالات سنبھلنے کا تاثر پیدا ہوا ہے تو اس حوالے سے بھی کچھ ’’ہل جل‘‘ کی اطلاعات سننے میں آئی ہیں۔
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعدپارلیمنٹ کے کل اراکین کا گیارہ فیصد کابینہ کا حصہ بن سکتاہے،اس طرح قومی اسمبلی کے 342اور104 سنیٹرز کی تعداد کے تناسب سے وزیراعظم کا یہ آئینی استحقاق ہے کہ وہ پچاس رکنی کابینہ رکھ سکتے ہیں۔
اس وقت کابینہ 20 وفاقی وزراء 10 وزیر مملکت اور تین مشیروں پرمشتمل ہے، گویا آنے والے دنوں میں بہت سے لوگوں کو کابینہ میں کھپانے کی گنجائش موجود ہے پھر کئی وزراء کو بعض وزارتوں کا اضافی قلمدان بھی دیا گیا ہے اور جن وزراء کی کارکردگی کے نتائج 18 ماہ میں بھی بہتر نہیں ہوئے، یقیناً اُن سے وزارتیں واپس بھی لی جا سکتی ہیں،بعض وزارتوں میں ردوبدل بھی یقینی ہے۔وزیراعظم اپنی کابینہ میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کب کرتے ہیں، اطلاعات کے مطابق وزراء کی کارکردگی ہی نہیں بلکہ ’’غیرسرکاری‘‘ سرگرمیوں کی رپورٹس بھی تیار ہیں۔ اس حوالے سے وزراء کی حکومتی اُمور میں دلچسپی متعینہ اہداف کے حصول میں کامیابی کی شرح غیر ملکی دوروں کے نتائج کے جائزے بھی اعدادو شمار کے ساتھ تیار کئے گئے ہیں، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کابینہ میں نئے چہروں کا تعلق زیادہ تر حکومتی جماعت سے ہی ہوگا تاہم کئی ماہ سے جاری بحران میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے دوسری جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کو بھی کابینہ میں شامل کیا جاسکتاہے۔
لیکن یہاں بھی ایک مختلف قسم کے خدشات موجود ہیں اور وہ یہ کہ کابینہ میں ردوبدل سے کئی وزراء کے قلمدان تبدیل ہو جائیں گے اور کچھ کو فارغ بھی کیاجا سکتا ہے جس کے باعث اُنکی ناراضگی فطری سی بات ہے۔جن ارکان کو وزارتیں دی جائینگی حکومت کی حمایت ان کے لئے یقیناً پہلے سے زیادہ پرجوش انداز میں ہو گی۔۔۔ لیکن ایسے ناراض ہونے والے ارکان اور اُنکے حلقوں میں اُنکے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گی جو اپنی خدمات اور قربانیوں کی فہرست سینے پر آویزاں کئے حکومتی مناصب کے انتظار میں ہیں۔اسلئے ایسی صورتحال میں جب اُنکے پاس اپنی ’’سیاسی تبدیلی‘‘ کا آپشن بھی موجود ہے، حکومت کو یہ فیصلہ کہیں مہنگا نہ پڑ جائے، پھر یہ بات پہلے بھی لکھی جا چکی ہے کہ۔۔۔ ہرچند حکومت کو بہتری کے اشارے مل رہے ہیں لیکن ’’ابھی حکومت کیخلاف سازش کچلی نہیں گئی ہے، صرف زخمی ہوئی ہے‘‘۔
تازہ ترین