کراچی میں افواہیں دوڑتی رہتی ہیں یا پھر موٹر سائیکل جسے دیکھو موٹر سائیکل پر بیٹھا ہے اور دوڑے جارہا ہے وہ اگر ہاتھ چھوڑ بھی دے تو موٹر سائیکل دوڑتی رہتی ہے ۔ بعض ایسے باریش احباب جبہ ودستار لگائے موٹر سائیکل دوڑاتے دیکھے جو اگر اسلام آباد میں ہوتے تو ہم کئی ایک کے ہاتھ پر بیعت ہوچکے ہوتے ۔ البتہ ایک بات جو ناگوار گزری وہ یہ کہ جس طرح پنجاب کی حکومت نہروں کی صفائی نہیں کرتی اسی طرح یہاں موٹر سائیکل والے ،موٹر سائیکل صاف نہیں رکھتے ، نوجوانی میں ہمیں بھی موٹرسائیکل صاف کرنے کی عادت نہیں تھی مگر ہم نے اس کا ایک حل نکالا ہوا تھا ، یہاں اسلام آباد کےگورنمنٹ پولی کلینک اسپتال کے ڈاکٹر صاحبان سے ہماری یاد اللہ تھی جن میں ڈاکٹرعارف ملک اور ڈاکٹر اشرف چشتی ہمارے عزیز دوستوں میں شمار ہوتے تھے ڈاکٹر عارف انتہائی صفائی پسند، نستعلیق اور نفیس نوجوان تھا ، کبھی کبھار جب موٹر سائیکل بہت گندی ہوجاتی تو ہم ڈاکٹر عارف کو فون کرتے رات کھانے پر بلاتے رات دیر تک باتیں کرتے رہتے جب وہ جانے لگتے تو ہم کہتے اوہو رات بہت گزر گئی اب کیسے جائو گے پھر جیب سے چابی نکال کر دیتے کہ موٹر سائیکل لے جائو ، وہ ہاف کک لگاتا بیٹھتا یہ جا وہ جا اور خوشی خوشی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا اور راستے میں سوچتا جاتا کہ ہم نے کس قدر ایثار اور ہمدردی کا برتائو کیا ہے اس کے ساتھ جبکہ ہم اس سرمستی میں جھومتے گھر میں داخل ہوتے کہ اگلی شام ڈاکٹرزمیس سے صاف ستھری موٹر سائیکل مل جائےگی۔ ڈاکٹر اشرف چشتی کو ہماری اس حکمت عملی کا ادراک تھا مگر خاموش رہا بس ایک آدھ بار اس نے کہا تھا کہ ’’ موٹر سائیکل دھلانے کا اچھا راستہ نکالا ہے ‘‘ خدمت کسی بھی حد تک کی جائے کسی کی بھی کی جائے رائیگاں نہیں جاتی ہماری موٹر سائیکل کی سیوا کے صلے میں اور اشرف چشتی کا خاموش رہنے کے انعام کے طور پران دونوں کی خدمات سعودی حکومت نے لے لی تھیں یہ غالباً1980 کی بات ہے وہ سعودی عرب کے شہر ’’ الخبر‘‘ میں نیوی کے اسلامیہ اسپتال میں گئے تھے، ڈاکٹر اشرف چشتی ابھی تک وہیں ہے جبکہ ڈاکٹر عارف بہت پہلے اسپیشلائزیشن کے لئے برطانیہ چلے گئے تھے وہ آج کل برطانیہ کے ایک بہت بڑے دواساز کارخانے میں ڈاکٹر آف میڈیسن ہیں سوچتا ہوں اب جب کبھی ڈاکٹر عارف پاکستان آئیں تو انہیں کراچی کی موٹر سائیکلیں دکھانے ضرور لے جانا چاہئے ۔ ہم اکثر کراچی جاتے رہتے ہیں وہ دن بھی تھے جب کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا دنیا سوتی تھی کراچی جاگتا تھا اپنائیت تھی بھائی چارہ تھا ۔ سب پاکستانی تھے۔ یہ وہ دن تھے جب پیڑول پمپوں کے کارندے ہزاروں روپے ہاتھ میں پکڑے کھلے عام کھڑے ہوتے تھے مگر آج پان اور دودھ دہی بیچنے والوں نے بھی اپنے کھوکھوں کے آگے لوہے کے جنگلے لگالئے ہیں جن میں ایک چھوٹا سا تقریباً6انچ کا سوراخ رکھا ہوا ہے اسی سے پہلے پیسے لیتے ہیں پھر پان دیتے ہیں ، عدم تحفظ کے اس احساس کو ختم کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ گزشتہ دنوں جب سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے خطاب کرتے ہوئے فخریہ انداز میں وضاحت کی کہ اندرون سندھ تھر میں لوگ بھوک سے نہیں غربت سے مرے ہیں تو گویا انہیں احساس ہی نہیں کہ غربت کسے کہتے ہیں اور بھوک کیا شے ہے ، اور ان کا سدباب کس نے کرنا ہے۔کراچی بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ہمارے اپنے اندر بھی کراچی آکر تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں لفظ ’’ پوسٹ مارٹم ‘‘ لکھا ہوتو ہم اسے پورٹ قاسم پڑھتے رہتے ہیں مگر یہ تبدیلیاں قابل اصلاح ہیں لیکن کراچی کے نوجوانوں میں جو تحریک پیدا ہورہی ہے اسے روکنے کی ضرورت ہے وہاں عام تاثر یہ ہے کہ کراچی ہی پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے سب سے زیادہ کاروباری طبقہ کراچی میں ہے وہی زیادہ سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں ۔ وہاں کے نوجوانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پنجاب سے ہمیں آلو پیاز نہ بھی آئے تو ہم جی لیں گے اس قسم کی باتیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی شروع ہوئی تھیں۔ جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو ہو اکرتے تھے انہی دنوں سندھ میں لسانی فسادات کا آغازبھی ہوا تھا تب ذوالفقار علی بھٹو نے نوجوان نسل کی مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لئے نیشنل سینٹر بنادئیے تھے تاکہ مختلف موضوعات پر نوجوانوں میں بحث مباحثے ہوں ، حمایت میں مخالفت میں جوکچھ نیشنل سینٹر کے مباحثوں مذاکروں اور تقریروں میں کہا جاتا اگلے روز کے اخبارات پڑھ کر بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجایا کرتا تھا آج بھی اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہمارے دانشور قلم کار ایسے وقت میں اپنا کردار ادا کریں وہ نوجوانوں کو بتائیں کہ کراچی کی تمام کاروباری سرگرمیاں محض کراچی تک محدود نہیں ہیں اس کے کاروباری خریداروں میں9کروڑ پنجابی شامل ہیں شمالی علاقے آزاد کشمیر، بلوچستان اور خیبر پختونخوا شامل ہے پنجاب کی کپاس، گنا، گندم اور چاول بھی ملکی معیشت میں اہم کردار اداکررہا ہے خیبر پختونخوا کے توسل سے ملک تربیلا جیسے منصوبوں سے استفادہ کررہا ہے بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے اندورن سندھ کی اپنی بہت زیادہ اہمیت ہے یہ ساری چیزیں مل کے پاکستان بنتا ہےموج ہے دریامیں بیرون دریا کچھ نہیں حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو اگر کاروبار اور ملازمتیں نہیں دے سکتی تو ہر شہر میں کم از کم ایک ایسا علمی وادبی مرکز ضرور قائم کرے جہاں وہ اپنے دل کی بات کہہ اور سن سکیں ، ہوسکے تو ہر صوبائی دارلحکومت میں برطانیہ کے ’’ ہائیڈ پارک ‘‘ طرز کا پارک شہر سے باہر قائم کردے جہاں سیاست سے دلچسپی رکھنے والےجب چاہیں اور جو چاہیں کہتے رہیں کوئی گرفت نہ ہو، اس قسم کی تجاویز ہم ایک عرصے سے دیتے آرہے ہیں اگر ہماری بات پر عمل کیا ہوتا توآج اسلام آباد کا ڈی چوک دھرنا چوک نہ ہوتا اوپر ہم نے پاکستان نیشنل سینٹر کی بات کی تو یاد آیا کہ1974, 75میں راولپنڈی نیشنل سینٹر کے مباحثوں میں جس منفرد کو سب سے زیادہ سنا جاتا تھا وہ تھی ’’ نیلو فر‘‘ خوبصورت تووہ تھی ہی بولتی بڑے دلائل کے ساتھ تھی بی اے کی طالبہ تھی بعد میں سیاست میں آگئی شادی ہوئی اور نیلوفر سے نیلو فر بختیارہوئی سچی بات ہے ہم نوجوان جون کی تپتی سہ پہر میں صرف ’’ نیلوفر‘‘ کو دیکھنے اور سننے جایا کرتے تھے لیکن کراچی کے لوگ ہیں کہ ’’ نیلوفر‘‘ سے خوف زدہ ہیں مچھیروں نے سمندروں سے کشتیاں نکال لیں ٹھٹہ اور بدین کے لوگ نقل مکانی میں پڑگئے ساحل سمندر پر دفعہ144نافذ کردی گئی ’’ نیلو فر‘‘ پاکستان کا دیا ہو اہی نام ہے یہی سائیکلون عُمان میں ’’ ہد ہد ‘‘ کہلاتا ہے ، سونامی ، کترینہ، ریٹا، نیلوفر، یہ ذومعنی نام ہیں زمین پر ہوں تو خوبصورت سمندر میں ہوں تو تباہی وبربادی یہ ایک طویل اور تاریخی کہانی ہے کبھی لکھونگا ، فی الحال آغا درانی اسپیکر سندھ اسمبلی کے اس عقیدت افروز جملے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ‘‘ ادھر عبداللہ شاہ غازی بیٹھا ہو اہے کچھ نہیں ہوتا آنے دو نیلوفرکو۔