• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جماعت اسلامی کے تین روزہ اجتماع عام میں ملک کے تمام علاقوں سے خود منتظمین کی توقعات سے کہیں زیادہ افراد کی شرکت جن میں بھاری اکثریت خالص عوامی طبقات کی تھی، بظاہر ثابت کرتی ہے کہ صرف پڑھے لکھے لوگوں تک محدود سمجھی جانے والی بنیادی طور پر یہ فکری تحریک اب عوامی مقبولیت کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ملک کے چاروں صوبوں اور تمام حصوں سے لوگوں کی آمد نے جن میں سندھی ، پشتو، بلوچی، بروہی، پنجابی اور اردو غرض پاکستان کی ہرزبان بولنے والے شامل تھے، اس اجتماع کو حقیقی معنوں میں قومی یکجہتی کا ایک بھرپور مظاہرہ بنادیا۔ خواتین کی تعداد بھی غیرمعمولی تھی اور ان میں بھی ملک کے ہر حصے کی نمائندگی موجود تھی۔ان لوگوں میں سے کسی کو بھی پیسے کا لالچ دے کر نہیں لایا گیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی آمد ورفت اور قیام و طعام کے اخراجات بھی یا تو خود اٹھائے تھے یاجماعت کے صاحب حیثیت کارکنوں اور حامیوں نے اس سلسلے میں ان کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ سیاسی جلسوں کی عام روایات کے برعکس اچھل کود اورہڑبونگ کے مظاہروں کے بجائے ہر سطح پر شائستگی کے تقاضوں کے لحاظ ، تہجد سے عشاء تک نمازوں کے التزام اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فکرانگیز تقاریر اور درس قرآن و حدیث کے اہتمام نے اسے ایک اخلاقی اور روحانی اجتماع بنادیا۔ درجنوں مسلمان ملکوں اور یورپ و امریکہ تک کی اسلامی تنظیموں کے نمائندوں کی شرکت سے یہ حقیقت نمایاں ہوکر سامنے آئی کہ پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ظلم و بے انصافی پر مبنی مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب کے علم برداروں کا یہ خوف بے جا نہیں کہ اسلام دنیا کے سامنے انسانیت کے مسائل کا منصفانہ حل پیش کرکے ان کے طبقاتی مفادات اور استحصالی نظام کے لئے حقیقی خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے اجتماع میں اتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کی مثالی جوش و جذبے کے ساتھ شرکت کے اسباب میں بلاشبہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی دعوتی کوششوں کا بھی بڑا حصہ ہے لیکن اس سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ قومی سطح پر سیاسی شعور کی بیداری کا جو عمل میڈیا کی آزادی سے شروع ہوا ، جس نے عدلیہ کی خودمختاری اور جمہوری عمل کا راستہ ہموار کیا، اُس کے اثرات اب سیاسی میدان میں بھی نمایاں ہورہے ہیں۔ ملک کے چپے چپے میں ٹی وی اسکرین کے توسط سے آج اَن پڑھ عوام بھی سیاسی قائدین کے خیالات ، ان کی ذہنی سطح، ملک و قوم سے ان کی محبت کی حقیقت، ان کے طرزِ زندگی اور مشاغل سے براہ راست واقف ہیں۔ ان پر یہ حقیقت عیاں ہورہی ہے کہ سیاست کو تجارت کے طور پر استعمال کرنے اور حکومت کو ملک اندر اور باہر اثاثوں میں اضافے کا سنہری موقع سمجھنے والے زبان سے عام آدمی کی محبت کے خواہ کتنے ہی دعوے کریں، ان کے حقیقی خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ جبکہ سراج الحق کی شکل میں ایک ایسا لیڈر اُن کے سامنے آیا ہے جس نے کروڑوں عام پاکستانیوں کی طرح غربت اور افلاس کے مسائل جھیلے، جس نے ایک مزدور کے گھر میں جنم لیا اور خود بھی محنت مزدوری کرکے تعلیم حاصل کی ۔ عام لوگوں کے مسائل کے حل کی کوششیں اس نے اپنے تعلیمی دور ہی سے جاری رکھیں اور جب اپنی عوامی خدمات کے نتیجے میں وہ اسمبلی میں پہنچا اور وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہواتو ایک ایک پیسہ پوری دیانت داری سے صرف عوام کے مسائل کے حل پر صرف کیا۔ جماعت اسلامی کی سربراہی ملی تو پہلے دن سے پاکستان کے عام آدمی کو زندگی کی تلخیوں کو کم کرنے کے لئے کچھ کرگزرنے کا ولولہ اس کے رگ و پے میں موج زن دکھائی دیا۔ اس نے عام آدمی کے لئے ایجنڈا تشکیل دینے پر کام شروع کیا جس کا اعلان اجتماع عام کے موقع پر کیا گیا۔ ملک کے سیاسی بحران کے حل کے لئے کام کا موقع ملا تو سراج الحق کی بے لوث کوششوں نے سب ہی کو ان کی محنت اور اخلاص کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیا۔اس لئے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خالص عوامی سطح پر جماعت اسلامی کی مقبولیت کے گراف میں جو بلندی نظر آنا شروع ہوئی ہے، اس میں اس کے موجودہ امیر کی شخصیت کا حصہ نمایاں ہے۔ بلاشبہ عوام نظری اور فکری مباحث سے زیادہ شخصیات اور ان کے کردار و عمل سے متاثر ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت پر اگرچہ مفاد پرست مراعات یافتہ استحصالی طبقے کبھی قابض نہیں ہوسکے کیوں کہ ایسے لوگوں کی یہاں کسی بھی سطح پر کوئی گنجائش نہیں۔علم و دانش اور تقویٰ و پاکبازی کے لحاظ سے جماعت کی قیادت پر غیرمعمولی شخصیات فائز رہی ہیں لیکن سراج الحق جیسا خالص عوامی رہنما جماعت کو پہلی بار ملا ہے جبکہ موروثی قیادت کے اصول پر قائم ملک کی بیشتر دوسری جماعتوں میں تو ایسا ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں ۔ یہ جماعت کے خالص اسلامی جمہوری نظام کا کمال ہے کہ سراج الحق جیسا محنت کش اس کا سربراہ بنا ۔ یوں استحصالی قیادتوں کی بے انصافیوں کے شکار پاکستان کے غریب اور مظلوم عوام کو ایک ایسا لیڈر مل گیا ہے جو نہ صرف یہ کہ حقیقتاً ان ہی میں سے ہے بلکہ جس نے حکومتی وسائل و اختیارات حاصل ہونے کے بعد بھی زندگی کے ڈھنگ کو بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔اس لئے بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کے حقوق اور فلاح کے ضامن انقلاب کے لئے جیسا لیڈرمطلوب تھا لگتا ہے کہ وہ سراج الحق کی شکل میں قوم کو مل گیا ہے۔
اے کے بروہی پاکستان کے مایہ نازماہر قانون اور عالمی شہرت یافتہ دانشور تھے، ان کا کہنا تھا کہ تحریکوں کی کامیابی کے لئے صرف principles یعنی اصول کافی نہیں ہوتے بلکہ personality یعنی شخصیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستان میں عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لئے انقلاب برپا کرنے کے دعویدار پہلے بھی اٹھتے رہے ہیں اور آج بھی ہیں لیکن وہ سب یا تو مراعات یافتہ استحصالی طبقوں ہی سے تعلق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں یا پھر حکومت و اختیارات ملنے کے بعد انہوں نے استحصالی طبقوں ہی کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کرلئے اور ان ہی کی طرح قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہوگئے ، اس بناء پر ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ عام آدمی کی فلاح کے لئے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لائیں گے۔ لیکن سراج الحق جیسے حقیقی عوامی لیڈر کی قیادت میں جماعت اسلامی کے لئے ایسا کرنے کے مواقع ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ اب ضرورت ان مواقع کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی ہے۔تنہا پرواز کا فلسفہ ماضی میں بھی جماعت کے لئے مفید ثابت نہیں ہوا اور شاید اب بھی اس کا وقت نہیں آیا ہے اس لئے ملک اور قوم کے مفادات کے حوالے سے کسی کم سے کم ایجنڈے پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنا ہی بہتر ہوگا۔متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کی تجویز بہت معقول ہے لیکن وہ سیاسی جماعتیں جو موجودہ انتخابی نظام میں برادری، جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، دولت اور برادری کی بنیاد پر جیتنے کی طاقت رکھنے والوں کو ٹکٹ دے کر اپنی کامیابی یقینی بناتی ہیں، ان کا متناسب نمائندگی پر راضی ہونا آسان نہیں۔ چنانچہ اس کے لئے عوامی آگہی کی مہم چلاکر اسے ایک عوامی مطالبہ بنانا ہوگا۔ عوامی ایجنڈے کے نکات پر عمل درآمد کے لئے وسائل کس طرح فراہم کیے جائیں گے،اس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ لوگ انہیں بے بنیاد وعدے سمجھنے کے بجائے جان لیں کہ ان کے پیچھے انہیں قابل عمل بنانے کی پوری منصوبہ بندی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی واضح کرنا ہوگی کہ جماعت اسلامی بندوق کے بل پر تبدیلی کی ہرگز قائل نہیں اور جو تنظیمیں اس کے لئے کوشاں ہیں ان کے طریق کار سے قطعی اتفاق نہیں رکھتی بلکہ اپنے دستور اور اپنے بانی کی تصریحات کے مطابق صرف جمہوری ، آئینی اور قانونی ذرائع سے اپنے پیغام کے ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کرکے تبدیلی لانے کے طریق کار ہی کو درست سمجھتی ہے۔
تازہ ترین