• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لگتا ہے میری بقایا عمر وضاحتیں کرنے میں ہی گزر جائے گی۔ آج ارادہ تو کسی اور موضوع پر لکھنے کا تھا لیکن ایک کالم نگار نے ایسی بات لکھ دی کہ اپنا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ صرف ان صاحب پہ ہی موقوف نہیں اکثر لکھاری بلا تحقیق ایسی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک وضاحت کرنی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ قائد اعظمؒ اور تحریک پاکستان کے حوالے سے میرا طالب علمانہ نقطہ نظر ہے ورنہ میں نے نہ پاکستان بنتے دیکھا اور نہ ہی قائد اعظمؒ کو دیکھا۔ میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے پاکستان بنا بنایا پایا اور قائد اعظمؒ کو دیکھنے کا شرف کبھی حاصل نہ ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت میں کمسن تھا اور مغربی پنجاب میں تھا اس لئے نہ ہی تقسیم کے خون اور آگ سے گزرا اور نہ ہی ان واقعات کا شاہد ہوں۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظمؒ میرے پسندیدہ موضوعات ہیں اس لئے انہیں خلوص سے طالب علمانہ انداز میں پڑھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔
محترم کالم نگار نے لکھا ہے کہ قائد اعظمؒ پاکستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے کابینہ مشن پلان کا بھی حوالہ دیا جس کی قبولیت سے اکثر لوگ یہی نتیجہ نکالتے ہیں۔ مجھے یہ قائد اعظمؒ سے زیادتی لگتی ہے اور اس سے سطحیت کی بُو آتی ہے۔ ہندوستانی مصنف جسونت سنگھ کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ میں نے کابینہ مشن پلان، قائد اعظمؒ کے موقف اور ان کی اس حوالے سے مسلم لیگ کونسل میں تقاریر اور کانگریسی لیڈروں کے ردعمل کو بار بار پڑھا ہے اور آزاد ذہن کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قائد اعظمؒ نہ کبھی قیام پاکستان کے موقف اور مشن سے تائب ہوئے نہ کبھی انہوں نے امید کا دامن چھوڑا اور نہ ہی حصول پاکستان کی منزل کو ترک کیا۔ غورسے پڑھنے کے بعد مجھے یہ محض حکمت عملی کی تبدیلی لگتی ہے جس کا منتہائے مقصود حصولِ پاکستان تھا۔ تاریخ کے صفحات کھنگا لیں تو اس حوالے سے بہت سے شواہد ملتے ہیں جو قائد اعظمؒ کی سوچ اور حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ 1945-46کے انتخابات ’’پاکستان‘‘ کے ایشو پر لڑے گئے۔ قائد اعظمؒ نے انتخابی تقاریر میں بار بار کہا کہ اگر تم پاکستان حاصل کرنا چاہتے ہو تو مسلم لیگ کو ووٹ دو۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے کامیابی کا ریکارڈ قائم کیا اور مرکزی اسمبلی کی تمام مسلمان نشستیں جیت لیں۔ قائد اعظمؒ ایک دیانتدار شخص تھے اور ان کا اپنا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی نوے فیصد سے زیادہ حمایت حاصل کر کے اور پاکستان کے نام پر ووٹ لے کر وہ اپنے مینڈیٹ سے ہٹ سکتے تھے؟ میرے نزدیک ایسا ممکن نہیں تھا۔یاد رہے کہ مسلم لیگ کے اسمبلیوں میں منتخب اراکین کے کنونشن نے دہلی میں پاکستان کے حصول کا حلف اٹھا لیا تھا۔ مسلمان عوام کو ایثار، جذبات اور حصول پاکستان کے خواب کی بلند ترین چوٹی پر پہنچا کر قائد اعظمؒ پاکستان کے تصور سے انحراف کرتے تو تاریخ انہیں کیا کہتی؟ یہ بات قائد اعظمؒ کی فطرت ، کردار اور کیمسٹری ہی کے منافی تھی۔
دوستو! صرف اتنی زحمت کریں کہ ان کی تقاریر کو بین السطور پڑھو، محض سطحی اور سنی سنائی پر مت جائو۔ کابینہ مشن پلان کو مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں پیش کرتے ہوئے انہوں نے دو باتیں کیں اور مسلم لیگ کو پلان قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ وژن، یہ نظر ایک عظیم لیڈر کی تھی جو جذبات سے ہٹ کر طویل المدت Long Rangeبصیرت رکھتا تھا۔ قائد اعظم ؒ نے یہ عندیہ بالکل نہیں دیا کہ وہ پاکستان کے تصور سے ہٹ رہے ہیں انہوں نے زور دے کر کہا کہ مجھے کابینہ مشن پلان میں پاکستان کے بیج (Seeds)نظر آتے ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ بیج چند برسوں میں ثمر بار ہوں گے تو تم اپنا مقصد حاصل کر لو گے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ میں نے مسلمان قوم کو پٹری پر چڑھا دیا ہے اب یہ پاکستان حاصل کئے بغیر نہیں رہے گی۔ یہ الفاظ اس شخص کے تھے جس کی نگلیاں عوام کی نبض پر تھیں۔ کابینہ مشن پلان میں پاکستان کے بیج (Seeds) سے مراد وہ دس سال کا عرصہ تھا جس کے بعد صوبے گروپ سے نکل کر پاکستان بنانے میں آزاد تھے۔ آپ کو علم ہو گا کہ کابینہ مشن پلان میں مرکز یعنی وفاق کو صرف تین محکمے Subjects دیئے گئے تھے اور مالی امور (فنانس) صوبوں کے پاس تھے گویا وفاق فنانس کے لئے صوبوں کا دست نگر تھا۔ اسی حوالے سے قائد اعظمؒ نے کہا تھا کہ ہم حکومت کو ناکام کر دیں گے اور یہ دس سال کا عرصہ سکڑ کر چند سال ہی رہ جائے گا۔ مسلم لیگ کونسل اور مسلم لیگی زعماء نے اس نقطہ نظر اور وژن کو قبول کرتے ہوئے کابینہ پلان تسلیم کیا اور انہی مضمرات سے ڈر کر کانگریس نے اسے مسترد کیا۔ یہ وژن تھا کیا؟ اسے غور و فکر کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں قائد اعظمؒ کی ووڈرو ویاٹ (Woodrow Wyatt) سے گفتگو کا حوالہ بھی نہایت اہم ہے اور تاریخ کا حصہ ہے۔ ویاٹ لیبر پارٹی کا اہم لیڈر اور برطانوی پارلیمنٹ کا رکن تھا۔ اس نے Spectator میں اپنے مضمون مطبوعہ 13؍ اگست 1997ء میں انکشاف کیا کہ ’’جناح مشن پلان کو شک کی نظر سے دیکھتا تھا کیونکہ اس پلان نے فوری طور پر قیام پاکستان کو مسترد کر دیا تھا‘‘ ذرا غور کیجئے ’’فوری طور پر‘‘ کے الفاظ پر۔ گویا طویل المدت کے لئے مسترد نہیں کیا تھا۔ ’’جب میں نے اسے (جناح) تفصیل سے سمجھایا کہ کابینہ مشن پلان گریٹر مکمل پاکستان کے حصول کی شاہراہ پر پہلا قدم ہے تو جناح کا چہرہ چمک اٹھا اور اس نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا "That is it you've got it"ان الفاظ پر غور کیجئے کہ قائد اعظمؒ کے ذہن میں کابینہ مشن پلان کے ذریعے گریٹر (Greater)پاکستان کے تصور کا منصوبہ تھا نہ کہ ترک پاکستان کا۔ ذہن میں رکھیں یہ وژن اس بڑے لیڈر کا وژن تھا جو دور کی بات سوچ رہا تھا۔ وہ لوگ جو قائداعظم ؒ پر گورنر جنرل بننے کی آرزو کے تحت ادھورا پاکستان حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہیں، یہ الفاظ ان کے پروپیگنڈے کی نفی کرتے ہیں کیونکہ قائد اعظمؒ کی حکمت عملی ہی اور تھی جو کانگریسی چالوں کے سبب کامیاب نہ ہوسکی۔
قائد اعظمؒ کی اس حکمت عملی کو آپ اس تناظر میں سمجھیں کہ کابینہ مشن پلان کے تحت تین گروپ بنائے گئے تھے۔ ایک گروپ ہندو اکثریتی صوبوں پر مشتمل تھا۔ دوسرا مسلمان اکثریت صوبوں پر اور تیسرا بقایا علاقوں پر مشتمل تھا۔ مرکز کے پاس صرف دفاع، امور خارجہ اور مواصلات تھے۔ ہر گروپ نے اپنا اپنا آئین تشکیل دینا تھا اور مرکزی اسمبلی کو گروپوں کی اسمبلیوں کے فیصلوں میں مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔ یہ نظام دس سال کے لئے تھا جس کے بعد کوئی گروپ بھی اکثریت رائے سے اس نظام سے آزاد ہو کر مکمل طور پر باہر نکل سکتا تھا۔ کرپس کے مسودے کے مطابق ہندوستان کے مسئلے کا پہلا حل یہ تھا اور دوسرا حل کٹا پھٹا پاکستان تھا جس کے تحت تقسیم کے اصول کی بنا پر پنجاب اور بنگال کو تقسیم ہونا تھا۔ قائد اعظم کی مشن پلان قبول کرتے ہوئے حکمت عملی یہ تھی کہ اس کے تحت گروپ اکثریتی ووٹ سے آزاد ہو جائے گا اور گروپ بی میںمسلمان بڑی اکثریت میں ہیں اس طرح پنجاب اور بنگال تقسیم ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ مسلم لیگ کونسل کے پورے ملک سے آئے ہوئے پانچ سو سے زائد زعماء نے بھی اس وژن کے تحت کابینہ مشن پلان کو قبول کرنے کی منظوری دی۔ مسلم لیگ کونسل کے اراکین نہایت مخلص، سمجھدار، بابصیرت ، ایثار کیش اور منتخب اراکین تھے اور حصول پاکستان ان کے دلوں کی دھڑکن تھی وہ کوئی کم فہم لوگ نہیں تھے وہ کبھی بھی تصور پاکستان کا سودا نہ کرتے۔ تفصیل کے لئے میری کتاب ’’اقبالؒ جناحؒ اور پاکستان‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
میں کبھی کبھی اس بات سے محظوظ ہوتا ہوں کہ ہمارے سطحیت پسند دانشور کابینہ مشن پلان کو پاکستان کی نفی سمجھتے ہیں جبکہ ہندو لیڈران نے اس میں بہت سے خطرات بھانپ کر اسے مسترد کیا۔ پٹیل کانگریس کا سینئر لیڈر تھا اور ہندوستان کا ڈپٹی وزیر اعظم بھی رہا۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں پٹیل نے کیا کہا اس کا ذکر وی پی مینن نے اپنی کتاب ٹرانسفر آف پاور کے صفحہ نمبر 386میں یوں کیا ہے:
"Had they (Congress) accepted (The cabinet mission plan) the whole of India would have gone the Pakistan way."
ترجمہ :’’اگر کانگریس کابینہ مشن پلان قبول کر لیتی تو سارا ہندوستان پاکستان کی راہ پر چل پڑتا۔‘‘ اسی پٹیل نے کہا تھا کہ مسلمانوں کو ادھورا پاکستان دے کر جان چھڑائو۔ اشارہ اس طرف تھا کہ اگر تیسرے گروپ نے بھی آزادی کے حق میں ووٹ دیئے تو ریاستیں بھی ہندوستان کا حصہ نہ بن سکیں گی۔ مختصر یہ کہ قائد اعظمؒ کا کابینہ مشن پلان قبول کرنا پورا اور مکمل پاکستان حاصل کرنے کی حکمت عملی تھی جس میں کچھ وقت لگنا تھا نہ کہ یہ حصول پاکستان کے مطالبے سے انحراف تھا۔ ایک بار پھر وضاحت کر دوں کہ جب گروپ بی میں شامل مسلم اکثریتی صوبوں کو ووٹ کے ذریعے آزادی کا فیصلہ کرنا تھا تو وہ من حیث الصوبہ ہونا تھا اور اس طرح پنجاب اور بنگال کو تقسیم ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ کانگریس نے پلان کو مسترد کر کے اور انگریزوں نے کانگریس کا ساتھ دے کر مسلم لیگ کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا ۔ کچھ لکھاریوں نے یہ مغالطہ پیدا کر دیا ہے جس کی وضاحت ضروری ہے خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے....!!
تازہ ترین