• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روحانی شخصیات شہروں اور علاقوں کے مزاج پر اثرانداز ہوتی ہیں اور یہی وہاں کا اصل تعارف بھی ہوا کرتی ہیں۔ بڑے عرصے سے بلوچستان کی زیارت کی تمنا تھی۔ نوید ہاشمی کی دعوت یوں تو سانحہ پشاور کے حوالے سے تھی جس کا ذکر اور خیال شاید زندگی بھر دِل سے درد کی طرح جڑا رہے مگر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ بلاوا کسی اور طرف سے بھی ہے۔ روح نے بشارت دی مدتوں عشق کے معنی سے آگے نہ بڑھ سکنے والے مرید کو آخر ایسے مرشد کی قربت نصیب ہونے والی ہے جس کے اکھر علامتوں اور استعاروں سے آگے بڑھ کر زندہ تصویروں کا روپ دھار چکے ہیں، بس آنکھوں کی توجہ اور دل کا ارتکاز مقصود ہے۔ لفظوں کی نبض پر ہاتھ دھرنے کی دیر ہے، ایک سچا اور سُچا لمس سارے رابطے بحال کر دے گا لیکن دل لفظوں سے آگے بڑھ کر اس منظر کی دید کا تمنائی تھا جو عشق کی سرمستی سے سرشار شاعری کے خالق مستیں توکلی کے روحانی حصار میں ہے۔ دل کے سوٹ کیس میں ارمانوں کے مسودے اور نذرانے کے اشک لے کر روانہ ہوئے تو علم ہوا عشق کی منزل اتنی آسان نہیں ہوا کرتی۔ محبوب سے ملن ایک کڑی ریاضت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ فلائٹ کینسل ضرور ہوئی مگر امید نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ گہری دھند میں شوق کے دیے جلائے منتظر دِل کو جلد ہی ملن کا سندیسہ، زادِ راہ اور وسیلۂ سفر میسر کر دیا گیا۔ ایک چھوٹے جہاز میں امجد اسلام امجد، رخسانہ نور اور محمد عملیش صاحب کے ساتھ سفر آغاز ہوا جو ایڈونچر سے بھرپور تھا۔ رفتار اور زمین سے فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے پہاڑوں سے مکالمے کا زیادہ موقع ملا۔ سوچتی رہی کاش وہ اسمِ ذات مجھے میسر ہو جو اِن تک رسائی کو ممکن بنا سکے تو میں انہیں بلوچستان کے گلی کوچوں پر نچھاور کر دوں۔ ساڑھے تین گھنٹے کا سفر صدیوں کی مسافت پر حاوی تھا مگر رگ و پے میں سرشاری نے مزاج کو مضمحل ہونے سے بچائے رکھا۔ کوئٹہ ایئر بیس پر دل کا مشتاق پرندہ خلوص اور محبت کے تروتازہ پھول لے کر وارفتگی سے ہوائوں سے بغل گیر ہوا مگر میزبانوں کی گرمجوشی بھی فضائوں میں رچی شدید سرد مہری کو کم نہ کر سکی۔ سانحہ پشاور کے حوالے سے کوئٹہ رائٹرز فورم، عالمی جریدہ حرف اور انجمن ترقی پسند مصنفین بلوچستان نے سدرن کمانڈ کوئٹہ کے تعاون سے کل پاکستان یکجہتی مشاعرہ کا انعقاد کیا۔ اس مشاعرے میں اہل قلم و درد اور اہل طاقت و اختیار نے مشترکہ حکمت عملی کا عندیہ دیا۔ اس میں صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین، گورنر بلوچستان محمود خان اچکزئی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ، چیف سیکرٹری بلوچستان سیف چٹھہ، آئی جی بلوچستان محمد عملیش، وزیر صحت رحمت صالح بلوچ اور دیگر وزراء، سیکرٹریز اور فوج کے اعلیٰ افسران نے خصوصی شرکت کی۔ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کا خطاب سن کر شدید حیرت ہوئی۔ انہوں نے نصف گھنٹے سے زائد فی البدیہہ تقریر کی۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ اس بات کی شہادت تھا کہ حکمت اور طاقت یکجا ہوں تو بات بنتی ہے۔ خالی حکمت بے عملی کو جنم دیتی ہے اور حکمت سے عاری طاقت اندھی جبلت کو جو صرف بربادی پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی فوج میں ناصر جنجوعہ جیسے صاحبِ دانش اور حالاتِ حاضرہ کا بھرپور شعور رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ انہوں نے مکے دکھانے اور لہرانے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں مدلل گفتگو کی۔ ان کا طرزِ عمل اور رویہ کسی بڑے عہدے اور رتبے کے خمار کی چغلی کھانے کی بجائے اگلے مورچوں پر کھڑے ایک جانباز سپاہی کی گواہی دیتا تھا۔ اس مشاعرے کا ایک مقصد اہل دانش کے ذریعے پاکستان کے عوام اور پالیسی سازوں تک یہ پیغام پہنچانا بھی مقصود تھا کہ بلوچستان کو اپنی توجہ اور محبت کا مرکز بنا کر یہاں کے مسائل محسوس کریں مگر دید اور شوق کی طلب کا کشکول خالی ہی رہا۔ آنکھوں کو وہ نظارے میسر ہوئے نہ دل کو وہ روحانی قربت نصیب ہوئی نہ روح نے فضائوں میں رچی عشق کی لہر محسوس کی، جانے کیسی دھند نے محبت کی خوشبو کو محبوس کیا ہوا تھا، فریکوئنسی کے لیول کے درمیان حائل آندھیوں نے رابطہ بحال ہی نہ ہونے دیا، روٹھے اور منتشر مزاج لوگوں کی آنکھوں میں تیرتے شکوے پڑھنے اور ان سے مکالمہ کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ ان سے پوچھنا تھا کہ میں نے سینکڑوں پنجابی مزدوروں، استادوں اور دانشوروں کی لاشیں وصول کی ہیں لیکن کبھی بھی نفرت کا جواب نفرت سے دینے کی سوچ کو پنپنے نہیں دیا، لاہور اور پورے پنجاب میں موجود بلوچیوں کو اپنی گفتگو یا عمل سے اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیا لیکن آخر اُن پنجابیوں کا کیا قصور تھا؟ وہ کہاں کے پالیسی ساز تھے، انہیں کس جرم کی سزا دی گئی۔ پنجاب اور پنجابیوں سے نفرت کا کیا جواز کہ اپنی شناخت چھن جانے کے ہاتھوں وہ تو ہر لمحہ جیتے مرتے ہیں، آہ و زاری اور واویلا کرتے ہیں مگر کوئی نہیں سنتا۔ بلوچستان تو پھر بھی ان سے بہتر ہے کہ وہاں بلوچی، پشتو اور براہوی کو تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے جب کہ پنجاب میں ابھی تک ایسی بات کرنا یکجہتی کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔ میں انہیں بتانا چاہتی تھی صوبائی خود مختاری اور زبان و کلچر کی ترقی اور حقوق کے لئے ہم مل کر بھی جدوجہد کر سکتے ہیں اور نتائج ہمیشہ مکالمے اور جدوجہد سے ہی اخذ ہوتے ہیں، شر اور نفرت سے کبھی خیر اور محبت برآمد نہیں ہوتی۔ میں تو اپنے عزیز دوست ڈاکٹر شاہ محمد مری سے بھی مل نہ پائی جن کی کتب کے آئینے میں میں نے بلوچستان کو دیکھا اور سمجھا۔ میں کم آبادی والے صوبے میں سب سے زیادہ انڈین سفارت خانوں میں جا کر ان کی خدمات پر بھی مکالمہ کرنے کی خواہش مند تھی مگر آرمی میس سے کوئٹہ کلب اور ایئرپورٹ تک محدود سفر نے میری کسی بھی خواہش کو تکمیل کی سند نہ بخشی مگر میں مایوس نہیں ہوں۔ میں نے خلوص اور محبت کے پھولوں کی خوشبو روح میں محفوظ کر لی ہے۔ میری نگاہوں نے اس منظر کو ازبر کر لیا ہے اور میرا دل اس درد سے بندھ گیا ہے جو مجھے کوئٹہ کی فضائوں نے عطا کیا ہے۔ میں پھر آئوں گی اور اپنے جیسے عام لوگوں سے ملوں گی، وہاں کے منظروں کا حصہ بن کر اس دھرتی اور دھرتی کے لوگوں کے دکھ سے سانجھ بنائوں گی، وہ منظر جو ابھی میرے خواب کا حصہ ہیں میں انہیں اپنی یادداشت کے کیمرے میں عکس بند کر کے ان کا حقیقی روپ دیکھوں گی۔ مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے کیوں کہ اس وقت ایک ایسی ہستی بلوچستان میں آئی جی کے عہدے پر فائز ہے جو پیشہ وارانہ مہارت، دیانت داری اور حلیمی کے حوالے سے معروف ہے، فطرتاً اور مزاجاً ایک صوفی منش انسان ہیں، غیر جانبداری اور سرکاری فرائض کی تندہی سے بجا آوری کے سبب نہ صرف ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ان پر اعتبار کیا جاتا ہے اس لئے وہ مختلف سانحات کی تحقیقی ٹیموں کی سربراہی کر چکے ہیں۔ اسی طرح سیف اللہ چٹھہ ایک متحرک اور قابل افسر ہیں جن کی دور اندیش نگاہ مسائل کا حل تلاش کرنے اور معاملات کو سنوارنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیشنلسٹ وزیر اعلیٰ بلوچ ڈاکٹر محمد مالک، اعلیٰ انسانی قدروں کے حامل گورنر محمود خان اچکزئی اور فہم و فراست اور جرأت کے پیکر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کی کاوشیں ضرور بارآور ثابت ہوں گی۔
تازہ ترین