میں جیکب لائن سیکنڈری اسکول میں پڑھتا تھا۔ یہ 1951ء سے 1956ء کے درمیان کا عرصہ تھا۔ وہ بھی کیا وقت تھا، استاد ایسے شفیق و مہربان، قابل اور ایسی محنت اور لگن سے پڑھاتے کہ لگتا جو کچھ ان کے خزانۂ علم میں ہے، سب کچھ وہ عطا کر دیں گے۔ ان میں بنگالی اساتذہ بھی تھے اور ہمارے ساتھ بنگالی لڑکے بھی پڑھتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوتے، نہ نفرتیں اور نہ ہی عداوتیں تھیں۔ ہم ان کے گھر جاتے اور وہ ہمارے گھر آتے۔ ایک محبت کا دریا تھا کہ بہہ رہا تھا۔1956ء میں جب آئین بنا تو نفرت کی سیاست اور نفرت کے جذبات بھڑکنے لگے۔ بنگالی خوش نہیں تھے۔ جب 1962ء کا آئین وجود میں آیا تو نفرت کی سیاست عروج پر پہنچ گئی۔ ادھر حال یہ تھا کہ بلوچستان کے بلوچ بھی ناراض ہو گئے تھے۔ یہ ایک لمبی تاریخ اور داستان ہے۔ سندھ کے عوام میں بھی شکوک و شبہات بڑھے۔ پاکستان ایک آباد گھر تھا، وہ بکھرنے لگا۔
لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم تھے، ان کے زمانے تک پاکستان کا شمار خوشحال ممالک میں ہوتا تھا۔ معاشی حالات بہت اچھے تھے، امن و امان کا دور دورہ تھا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک تھا جس کی مالی ساکھ بہت مضبوط تھی۔ وہ دوسرے ملکوں کی مدد کرتا تھا۔ اس کی حیثیت عالمی سطح پر ایک بااثر ملک کی تھی۔ جب پاکستان کی ایک آزاد ملک کی حیثیت سے عالمی سطح پر پزیرائی بڑھی تو سازشوں کا دور شروع ہوا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو قتل کر دیا گیا اور یہ سانحہ راولپنڈی کے ایک عام جلسے میں ہوا۔ محلاتی سازشوں نے پاکستان کو افتراق و نفاق میں ڈال دیا۔ اتحاد اور پاکستانیت کا تصوّر پارہ پارہ ہونے لگا، قوم خانوں میں بٹ گئی۔اس صورت حال اور قومی ابتری کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور یہ المیہ 16؍دسمبر 1971ء کا سورج اپنے ساتھ لایا۔ پاکستان کے عوام غم و اندوہ میں ڈوب گئے۔ قوم اس واقعے کو یاد کر کے 16؍دسمبر کو آنسو بہاتی ہے۔ افسوس کہ آنے والے لیڈروں اور قیادتوں نے سبق نہیں سیکھا۔ انہوں نے اصلاح احوال کی کوئی صورت نہیں نکالی۔ جنہوں نے پاکستان کو شاد و آباد دیکھا ہے ان سے اس کی موجودہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔
اس سال 16؍دسمبر اس طرح آیا کہ ظلم و بربریت کا وہ واقعہ رونما ہوا جس میں دہشت گردوں نے پشاور میں بہت ہی معصوم بچّوں کا قتل عام کیا۔ اس واقعے نے نہ صرف پورے پاکستان کو بلکہ ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ شدت غم سے آنسو خشک ہوگئے۔ تاریخ میں ایسا حادثہ، ایسا ظلم کب لکھا گیا؟ جس دین کے ہم پیروکار ہیں وہ تو انسانیت کا احترام سکھاتا ہے۔ بچّے تو کجا وہ عورتوں، بوڑھوں اور مذہبی رہنمائوں کو قتل کرنے سے منع کرتا ہے۔ وہ فصلیں جلانے، درخت کاٹنے سے منع کرتا ہے۔ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں، یہ انسان ہیں یا درندے، جن کا شیوہ خون بہانا، معصوم بچّوں کو قتل کرنا۔ ان کے چہرے نہیں ہیں، خدایا ان کے چہرے دکھا دے، ان کو نامراد کر دے، اپنے نبیؐ کی رحمت کو عام کر دے۔ وہ جو ظالم ہیں ان کے نام و نشان مٹا دے، اب تو ظلم کی انتہا ہو گئی ہے، ہمیں کتاب حکمت کا عدل دے۔ ذرا غور کیجئے آج پاکستان کی یہ حالت کیوں ہے؟ نتائج یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے حکمراں بے عمل ہیں، ان کا کوئی کردار نہیں ہے، یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، اگر حکومتیں آئین کا پاس کر رہی ہوتیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم نے جو فیصلے کئے ہیں ان پر عمل کریں گے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اور ان سے پہلے والے بے عملی کا شکار تھے۔ یہ فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت کیوں پڑی جس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک دفعہ میاں صاحب نے ہر حربہ استعمال کیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کو خلاف آئین قرار دے دیا تھا۔اب اگر نظریہ ضرورت کے تحت اور حالات کی سنگینی کے تحت یہ بل اسمبلی سے پاس بھی ہو جائے تو اس پر سپریم کورٹ کا کیا ردّعمل ہو گا۔ اتنی لمبی مشق سے بہتر یہ نہ تھا کہ دہشت گردوں کو سزائیں حدود آرڈیننس کے تحت دی جائیں، جو موجود ہے۔ اس میں قصاص ہے، جان کا بدلہ جان۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ 16؍دسمبر کو جس طرح خون بہایا گیا ہے اس سے عوام یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردوں کا فوری صفایا کیا جائے۔ ان کو فوج پر اعتماد ہے، وہ انصاف چاہتے ہیں، عدل چاہتے ہیں۔ عوام جانتے ہیں جب تک عدل قائم نہیں ہو گا، دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو گا۔سیاستدانوں کی نااہلی یہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات کا فیصلہ عدلیہ سے کروانا چاہتے ہیں ۔ جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں اور غیر جمہوری راستے اختیار کرتے ہیں۔ آئینی فیصلے جو عدلیہ کو کرنے ہوتے ہیں وہ مک مکا کر کے خود کر لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کتنا بڑا ایشو بن گئی، کتنے لوگوں کے نام سامنے آئے لیکن اتفاق رائے نہیں ہوا۔ بڑی مشکل سے موجودہ الیکشن کمشنر کو تعیناتی کے لئے مناسب سمجھا گیا۔ یہ جو ردوکد ہوتی رہی اس سے عدلیہ کی بے توقیری کا تاثر بھی ابھرا۔
اب حکومت نے جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ فوجی عدالتیں دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ کریں گی تو عوام نے اس فیصلے کو پسند کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو آئینی موشگافیوں کا سہارا لے کر اس کو سپریم کورٹ سے معطل کرانے کی کوشش کریں گے۔ اس سے صورتحال رخ بدل سکتی ہے لیکن حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ فساد الارض کے تمام حیلے بہانوں کو ختم کردیا جائے۔ اس وقت عوام اس کا حل فوجی عدالتوں کے قیام میں دیکھ رہے ہیں۔ آج یہ کہا جا رہا ہے کہ عدل فوج قائم کر سکتی ہے، یہ سول حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔اگر ہمارے حکمراں وہ کرتے جو وہ کہتے ہیں تو یہ ملک ایک مثالی جمہوریت کا شاہکار بن کر ابھر چکا ہوتا۔ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں چالیس، پچاس ایسے قابل افراد نہیں ملتے جنہیں اداروں کا سربراہ بنایا جا سکے۔ یہ نظام کی خرابی نہیں ہے، یہ حکمرانوں کی کج روی کا نتیجہ ہے۔ کسی نے کیا اچھی بات کہی ہے:
بہت آباد تھے ہم خانۂ ویرانی سے پہلے
ہمارے ملک میں صاحب علم اور اہل لوگوں کی کمی نہیں ہے۔