اسلام آباد کا رہائشی سیکٹرF-6/3 آج بھی وفاقی دارالحکومت کے مہنگے ترین سیکٹرز میں شمار ہوتا ہےطبقہ اشرافیہ کی کشادہ رہائشگاہوں یا پھر ملک کی اعلیٰ ترین بیوروکریسی اورکہیں کہیں غیرملکی سفارتکاروں کی قیام گاہوں کے باعث اول تو ویسے بھی یہاں سکیورٹی کا نظام خاصا جدید ہے پھر مکینوں نے ’’احتیاطً‘‘ بھی گھروں پر مسلح سکیورٹی گارڈز اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ خودکار کیمرے نصب کرارکھے ہیں اسی علاقے میں اسلام آباد کی قدیم ترین کوہسار مارکیٹ بھی واقع ہے کسی زمانے میں غیرملکی شہریوں بالخصوص سفارتکاروں کی یہ پسندیدہ مارکیٹ تھی جہاں وہ باقاعدہ شاپنگ کرتے دکھائی دیتے تھےضخیم ناول کے انہماک میں گم.... دھوپ میں پڑی بینچوں پر سورج کی تمازت حاصل کرتے ہوئے... کم وبیش چار دہائیاں گزرنے کے بعد یہاں خاصی تبدیلی آئی ہے خاموش اور پرسکون ماحول میں قدرے افراتفری اور اضطراب آگیا ہے مقامی دکانداروں کے ساتھ گھنٹوں گپ شپ کرنے والے غیرملکی بوڑھے عورتیں اوروضع دار دکاندار بھی رخصت ہوئے جو ان غیرملکیوںسےپیسہ کمانے کی بجائے مشرقی ثقافت کی اعلیٰ اقدار اور آداب میزبانی سے اپنے ملک کی برتری ثابت کرنے کیلئے حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے .... کافی پیش کرتے اور بطور خاص دکان پر انگریزی اخبار کا انتظام ضرور رکھتے۔ اب اس کوہسار مارکیٹ کا کلچر تبدیل ہوچکا ہے۔
اسی کوہسار مارکیٹ سے چند منٹ کی مسافت پر سلمان تاثیر کا گھر بھی ہے اس گھر سے کئی داستانیں اور کہانیاں منسوب ہیں جو ان کے ساتھ ہی دم توڑ چکی ہیں وہ اسلام آباد میں ہوتے تواپنے گھر میں قیام کرتے ....اگر کسی کام سے مختصر وقت کیلئے لاہور سے اسلام آباد آنا ہوتو چند لمحوں کیلئے ہی سہی لیکن گھرکا ایک چکر ضرور لگاتے اسلام آباد میں موجود ہوتے تو گھر پوری طرح ’’آباد‘‘ رہتا اورقرب وجوار کے لوگوں کو بھی اندازہ ہوجاتا کہ مکین کا قیام مکان میں ہے گورنر بننے کے بعد بھی اسلام آباد میں قیام ان کی پہلی ترجیح اپنا گھر میں ہوا کرتی تھی۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ’’حساب کتاب‘‘کے ماہر سلمان تاثیر کی اکائونٹسی کی فرم کو ملک گیر شہرت حاصل تھی وہ اپنے کاروبار کو پروفیشن کے انداز میں اور پروفیشن کو بھی کاروبار کے انداز میں کیا کرتے تھے پیپلزپارٹی میں ’’نظریاتی‘‘ لوگوں کا حلقہ بھی سمٹ چکا تھا جو بچے کھچے تھے انہیں روشن خیال کہا جاتا تھا اور سلمان تاثیر کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے سیاسی عقیدت رکھنے والے سلمان تاثیر جب جنرل کی وردی میںملبوس صدر پرویزمشرف کی نگران کابینہ میں حلف اٹھاتے دکھائی دئیے تو ان کے روشن خیال اور پیپلزپارٹی کے جیالے ہونے پر ان کی پارٹی کے لوگ تذبذب اورقدرے حیرت کا شکار ہوگئے پھر2008ء میں جب ایک جرنیل کی حکمرانی میں انہیں پنجاب کا گورنر بنایاگیا تو انہوں نے باوردی صدر کے نمائندے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں(گورنر صوبے میں صدر کا نمائندہ ہوتا ہےاورصدر کو ہی جوابدہ۔ اس لئے اس کے انتخاب کیلئے اس پر ذاتی اعتماد ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے) اس طرح سلمان تاثیر جنرل پرویز مشرف کے اعتماد پربھی پورے اترے۔
سلمان تاثیر نےاپنا سیاسی سفر1960 کی دہائی میںزمانہ طالب علمی سے شروع کیا تھا۔ 1980 میں انہوں نے شہیدرہنما ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح عمری لکھی 1988 میں جب بینظیربھٹو پہلی بار اقتدار میں آئیںتوسلمان تاثیرپنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ اب کہاںایک فوجی آمر کی ایما پر اپنے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے خلاف سراپا احتجاج سلمان تاثیرجنہوں نے اسیری کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اور یہاںایک دوسرا فوجی آمر جس کی نمائندگی کرنے کیلئے انہوں نے پنجاب کی گورنری قبول کی....یہ درست ہوسکتا ہے کہ جنرل(ر) پرویزمشرف کو یہ سیاسی تحفہ خیرسگالی کے اظہار کیلئے یہ اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دیا ہو لیکن یہ بھی خوب تضاد تھا کہ گورنر ہائوس کے دفاتر میں اس وقت کے صدرجنرل پرویزمشرف کی باوردی تصاویر آویزاں تھیں اور باہر سبزہ زار میں گورنر صاحب پی پی پی کے ورکروں کے ساتھ جب تک سورج چاند رہے گا۔ بھٹو تیرا نام رہے گا۔ کے نعرے لگاتے تھے۔
بہت سے لوگوں کی طرح سلمان تاثیر بھی جدت پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے والے لوگوں کی اس سوچ کے حامی تھے کہ متنازع امور کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں اس کا اظہار نہ کرنا اس نظرئیے اور سوچ سے بددیانتی کے مترادف ہے چنانچہ وہ اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا کرتے تھے اور پھر جب وہ گورنر کے منصب پر فائز ہوئے تو اس وقت بھی انہوں نے اس سرکاری منصب کے تقاضوں کی مطلوبہ احتیاط کو نظرانداز کئے رکھا۔ناموس رسالتﷺ کے قانون میں تبدیلی کی بات انہوں نے گورنر کی حیثیت سے کی تو بعض مذہبی حلقوںکے نزدیک یہ ایک سرکاری اشتعال انگیزی تھی توہین رسالت کیس میں موت کی سزا یافتہ آسیہ بی بی سے ملاقات کے لئے وہ بنفس نفیس پہنچے تو کئی مذہبی حلقوں میں ایک بھونچال آگیا اورگورنر صاحب کے خلاف فتوے جاری ہوگئے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ’’ میں تو موت سے نہیں ڈرتا‘‘
انہوں نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے زور دے کر توہین رسالت کے قانون پر نظرثانی کی تجویز دی جس کا شدید ردعمل ہوا ۔
4جنوری2011 کو اسلام آباد کے سیکٹر F6/3میں گورنر صاحب نے اپنے کچھ دوستوں کو بلایا ہوا تھا جہاں گفتگو کی طویل نشست کے بعد کھانے کا پروگرام بنا تو وہ انہیںکوہسار مارکیٹ میں واقع اس ریستوران میں لے آئے جہاں ان کی پسندیدہ مکس سبزیوں کا’’بھاجی بلیٹر‘‘ ملتا تھا اور وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ بغیر جھنڈے کی ذاتی گاڑی میںگھر سے ریستوران تک بغیرپروٹوکول کے آئے تھے تاہم ان کی حفاظت پر مامور سرکاری سکیورٹی کا پولیس اسکواڈ ان کے ساتھ ہی وہاں پہنچا گورنر صاحب نے پسندیدہ لنچ انجوائے کیا اور پھر دھوپ میں بیٹھ کر کافی دیر گپ شپ کی۔ ہر چند کہ ان کے اس بے تکلفانہ طرزعمل کو گورنر کے پروٹوکول سے منافی قرار دےکر درخواست کی گئی تھی کہ یہ طرزعمل آپ کے شایان شان نہیں،ان کے بیانات اور کئی اقدامات کے پیش نظر بعض خفیہ ایجنسیوں نے بھی انہیں خصوصی احتیاط کا مشورہ دیا تھا لیکن گورنرصاحب ان تجاویز،مشوروںاور درخواستوں سے بے نیاز رہےاور پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔کافی کے آخری گھونٹ پینے کے بعدگورنر صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ کرسیوں سے اٹھ کر گاڑی کی طرف بڑھے ہی تھے کہ انہی کی حفاظت پر مامور پولیس ا سکواڈ کے ایک اہلکار نے اپنی سرکاری بندوق کی تمام گولیاں ان کے جسم میں پیوست کردیں۔ اس کے بعد کی تمام تفصیلات اور جزئیات خاصی تکلیف دہ ہیں پاکستان پیپلزپارٹی نے تین روزہ سوگ اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا اعلان کیا۔ صدر اور وزیراعظم نے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کردیں.... اور وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ان کے سفر آخرت میں شرکت کی ہدایت کی اور پھر سب کچھ ختم ہوتا گیا آہستہ آہستہ بتدریج پیپلزپارٹی کو ان کی برسی پرکوئی تعزیتی تقریب کرنی بھی یاد نہیں رہتی بس وہ لوگ ہیں جو سلمان تاثیر کو پسند کرتے تھے ....ضروری نہیں کہ وہ سب ان کے نظریات اور سوچ سے بھی متفق ہوں لیکن ایک ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ ٗبھرپور سیاسی اور بڑا خاندانی پس منظر رکھنے والا خوبصورت شخص جسے محض اس کی سوچ سے اختلاف رکھنے کے سبب اس بہیمانہ انداز میں زندگی کے منظر سے ہٹا دیا جائے اس پر احتجاج کرنا اور برسی کے موقع پر انہیں یاد رکھنا ان کو پسند کرنے والوں کا حق ہے ..... یہ لوگ ہر مرتبہ ان کی برسی پر شمعیں روشن کرتے انہیں یاد کرتے ہیں اسلام آباد کی کوہسار مارکیٹ میں جہاں سلمان تاثیر نے کافی کے آخری گھونٹ پیئے تھے ..... اور زندگی کے آخری سانس لئے تھے۔4جنوری کو اس مرتبہ بھی انہیں پسند کرنے والوںنے جن میں خواتین کی بہت بڑی تعداد شامل تھی ان کی یاد میں شمعیں روشن کیں اور آنسو پونچھتے ہوئے خاموشی سے اپنے گھروں کو چلے گئے .....لیکن لاہور کے لبرٹی چوک میں کیا ہوا؟ یہاں بھی سول سوسائٹی کے اراکین یادوں کے مہکتے پھولوں اور روشن شمعوں میں اپنے دوست کو یاد کررہے تھے.... ان کی محبت اور ان کے حق میں پوسٹر اٹھائے ہوئے تھے کہ نامعلوم افراد نے لاٹھیوں سے روشن شمعوں پر حملہ کردیا۔
راز رام پوری نے کس سادگی سے کیا گہری بات کی ہے،
مل گئی مجھ کو تو دنیا سے نجات
قتل کر کے آپ کو کیا مل گیا
اطلاعات ونشریات کے وفاقی وزیر پرویزرشید جن کا سیاسی ماضی بھی روشن خیال ہی رہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو سے وابستگی کا صرف اعتراف ہی نہیں بلکہ تذکرہ بھی اعلانیہ کرتے ہیں ستائش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس واقعہ کی مذمت کی اورغیرمبہم انداز میں .....پھر پنجاب حکومت نے ان ’’نامعلوم افراد‘‘ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم بھی دیا اور گرفتاریاں بھی کیں جنہوں نے لاٹھیوں سے جلتی شمعیں بجھانے کی کوشش کی۔