پاکستان کی معیشت انڈیا کی نسبت کم ہے بھارت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے اور اس کی مجموعی پیداوار اربوں امریکی ڈالروں سے زائد ہے ۔ بھارت کا دس بڑے صنعتی ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کی صنعتی پیداوار مجموعی پیداوار کا بیس فیصد ہے ۔ اس کا صنعتی شعبہ برآمدات کا60فیصد حصہ فراہم کرتا ہے ، جس میں سے بیس فیصد برآمدات انجینئرنگ کے شعبہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اس میں موٹر سازی بھی شامل ہے ۔ صرف اسی برآمد کا حجم پاکستان کی تمام تر روایتی برآمدات کےمساوی ہے ۔ ہماری انجینئرنگ کی مجموعی مقامی پیداوار( جی ، ڈی ، پی) کی ایک فیصد سے بھی کم ہے ۔ صنعتی ڈھانچے پر آنے والی لاگت کو امدادی وسائل دے کر نہایت کم رکھا گیا ہے ۔ ان امدادی وسائل کی بنیاد براہ راست آمدنی مستثنیٰ ہے ۔ تنخواہ کا ڈھانچہ کم ہے اور دیگر واسطہ اور بالواسطہ لاگتیں بھی کم ۔ صنعتوں کو بڑی مقدار میں سرکاری امداد حاصل ہے ۔ جب تک معاشرتی اور طبعی ڈھانچوں کی لاگتوں، رعایتوں، امدادی رقوم اور ٹیکس کا نظام، غرض یہ کہ ہر شعبوں میں ان کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ ہوجائیں ، ہم کس طرح بھارت سے تجارت میں توازن قائم کرسکیں گے اور اپنی صنعتوں کو ایک خطرناک اور غیر صحت مند مقابلے سے محفوظ رکھ سکیں گے ۔
یہ چند بنیادی امتیازات ہیں ، جن سے حکومت اچھی طرح واقف ہے ۔ ٹیکس ادا کرنے والے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ جلد یابدیر لیکن بہرصورت آئندہ بجٹ سے قبل یہ غیر معمولی خامیاںدور کرلی جائیں گی ، ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ اقتصادی پیکیج محض ایک دکھاوا ہے جو کسی بھی طور صنعتی شعبہ کی ترقی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا جب تک ایسا اقتصادی پیکیج نہ دیا جائے جو صنعتی شعبہ کے لئے سود مند نہ ہو ، آخر کس طرح اس شعبہ سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے ؟
آٹھویں آئینی ترمیم کو غیر موثر کرنے والی تیرھویں آئینی ترمیم کو عام طور پر سراہا گیا ہے ۔ یہ ترمیم اسمبلی میں متفقہ طور پر تسلیم کرلی گئی جس کی پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ یہ یقیناً ایک بہت بڑی کامیابی ہے ، کیونکہ اس وجہ سے سابقہ جمہوری حکومتیں اپنی آئینی میعاد پوری نہ کرسکیں ۔ آٹھویں ترمیم کے بارے میں کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترمیم نے مارشل لا کو روک رکھا تھا جس نے ملک کے وجود کے پچاس برسوں میں زیادہ تر عوامی نمائندگی کی جگہ ، ملک کے اقتدار پر قبضہ کررکھا تھا ۔ پاکستان کا آغاز بہرحال ایک پارلیمانی حکومت کے تحت ہوا ، تاہم جلد اس پر مارشل لا مسلط ہونا شروع ہوگیا ۔ یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے سویلین مارشل لا سمیت وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔ یہ مفروضہ زبان زدعام ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت پرقابل ترجیح ہے ۔ تاہم پاکستان کی صورت حال کے پیش نظر یہ امر قابل غور ہے کہ آیا یہ مفروضہ صحیح ہے یا غلط۔ اس پر ایک سرجن، ایک انجینئر اور ایک سیاستدان کا وہ قصہ یاد آتا ہے ، جس میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ ان میں سے کس کا پیشہ سب سے قدیم ہے ۔
سرجن کے مطابق سرجری اس لئے سب سے قدیم ہے کہ حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور یہ عمل سرجری سے ممکن تھا ۔ انجینئر کا کہنا تھا کہ آغاز کائنات میں کوئی موجود نہ تھا ایک افراتفری اور بدنظمی کا عالم تھا اور اسی کی خدمات کے ذریعہ یہ نظام کائنات وجود میں آیا ۔ اس پر سیاستدان سے نہ رہا گیا اور اس نے پوچھا کہ ان کے خیال میں وہ تمام افراتفری اور بدانتظامی کس نے پھیلائی تھی ؟ اگر پاکستان کا آغاز پارلیمانی حکومت سے ہوا تو پھرمارشل لا اور پھر بعد میں یہ آٹھویں ترمیم کا وجود کیسے عمل میں آیا ۔ سوال یہی ہے کہ ملک میں اس افراتفری اور انتشار کا آخر ذمہ دار کون تھا ؟جمہوریت کی واپسی کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کو غور کرنا ہوگا کہ مارشل لا اور متعدد ترامیم پر منتج ہونے والا یہ انتشار کیسے پیدا ہوا؟اس مسئلہ پر مختلف نقطہ ہائے نظر میں چاہے کتنا ہی اختلاف پایا جائے یہ ملک مزید انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عوام سیاسی استحکام اور اقتصادی ومعاشرتی بہبود کے علاوہ کسی اور مسئلہ میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ بھٹو کے ’’ روٹی، کپڑا، اور مکان کے نعرے اور میاں نواز شریف کی حالیہ کامیابی اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں خصوصاً میاں صاحب اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن پر ماضی کے مقابلہ میں اب کہیں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ یقیناً میاں صاحب قومی مفاد میں اس صورت حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سیاسی استحکام، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتے جب تک ایک واضح نظریہ سامنے نہ ہو، منزل کی سمت کا تعین اور مقصد سے لگن نہ ہو ۔ ساتھ ہی ایک جامع منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے لئے پر خلوص کوششیں لازم ہیں ۔ محض اسمبلی میں اکثریت سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مقصد کے ساتھ اخلاص بھی درکار ہے ۔ عوام کی مجموعی اقتصادی ومعاشرتی خوشحالی سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرتی ہے ۔ پاکستان کے معاملے میں کئی عناصر اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہیں ۔ جن میں آزاد معیشت کا نعرہ اور ملکی معیشت میں استطاعت ہونے کے باوجود بھارت سے تجارت کی بات شامل ہے ۔ کشمیر کا حل بھی تعطل کا شکار ہے ان مسائل کے علاوہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے تعلقات کا معاملہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے جنرل مشرف تک ہم نے ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک پر انحصار کیا ہے ۔ ہمارا بنیادی اقتصادی ڈھانچہ ایک امریکی گروپ کے ماہرین کا تیار کردہ ہی ہے اور بنیادی طور پر درآمدی متبادل صنعت پر منحصر ہے جوکہ مقامی خام مال اور مرکزی اقتصادی ،معاشرتی اور طبعی انفراسٹرکچر پر انحصار کرتی ہے ۔ اس وقت کا اقتصادی پیکیج بھی غیر روایتی اور منافع بخش پیداوار کی برآمدات کے لئے سازگار نہیں تھا ۔ آج بھی صورت حال کم وبیش وہی نظر آتی ہے ۔
صنعتوں کے لئے آج بھی موثر منصوبہ سازی نہیں کی جاتی جو کہ ملک میں دولت کی پیداوار اور فراہمی روزگار کا ذریعہ ہیں اور زرمبادلہ کماتی ہیں ۔ ہم نے ہمیشہ اپنی ناکام برآمد کے طور پر روپے کی قیمت کوکم کیا ہے ۔ جو سال بہ سال ملک کے قرضوں میں اضافہ کا باعث بنا ہے اور جس کے نتیجے میں دفاعی اخراجات سے بھی زائد رقم قرضوں کی واپسی پر خرچ ہورہی ہے ۔ اب ہم اپنے قرضے اتارنے کے لئے مزید قرض لینے کے لئے امجبور ہیں ۔ یہ امرنگراں دورحکومت میں بھی جاری رہا ہے ۔ قرضوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ نے معیشت کو اس قدر ناتواں بنادیا ہے کہ شاید ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی کرنا پڑے ۔
آج کی شب جب دیا جلائیں اونچی رکھیں لو