فلپ بارٹن، پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر ہیں ان کی اسلام آباد میں تقرری کو تو ایک سال ہوا ہے لیکن پاکستان سے ان کا تعلق پرانا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان پر برطانوی راج میں ان کے آباؤ اجداد اس خطے میں عسکری خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی بعض حوالوں سے فلپ بارٹن کا تعلق پاکستان سے رہا ہے اور وہ پاکستان میں آمد و رفت اور یہاں سے اپنے تعلق کے تذکرے سنہری یادوں کے ضمن میں کرتے ہیں۔ غیررسمی گپ شپ میں وہ بتاتے ہیں کہ 80 اور 90 کی دہائی میں جب وہ پاکستان آیا کرتے تھے تو قمیص شلوار پہن کر پشاور میں مقامی باشندوں کی طرح گلے میں پستول ڈال کر گھوما کرتے اور یادگار تصاویر بناتے۔ بہرحال یہ خوشگوار دنوں کی باتیں تھیں۔ فلپ بارٹن کی والدہ ایک انتہائی شفیق، ملنسار اور گریس فل خاتون ہیں اور اس پیرانہ سالی میں بھی انتہائی متحرک اور فعال ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں جب پاکستان اور واہگہ کی سرحد پر دہشت گردی کے واقعہ میں بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں تو فلپ بارٹن اپنی والدہ کی خواہش پر انہیں واہگہ بارڈر پر لے گئے۔ وہیل چیئر پر موجود خاتون کا اس سانحے کے خلاف پاکستان کے ساتھ یہ اظہار یکجہتی اعلانیہ نہیں بلکہ علامتی تھا۔ سفارتی نہیں بلکہ جذباتی تھا۔ فلپ بارٹن اپنی والدہ جن کی نقل و حرکت کا انحصار وہیل چیئر پر ہے۔غیرمعمولی طور پر خیال رکھتے ہیں اور ماں سے حساس انداز کی وابستگی مغرب کے بارے میں اس تاثر کی شدت سے نفی کرتی ہے جو خونی رشتوں، خاندانی تعلق اور اس ضمن میں روایات کے حوالے سے پایا جاتا ہے... کہ وہاں ایسی تمام روایات دم توڑ چکی ہیں یا توڑ رہی ہیں۔ اولڈ ہاؤسز کی مثالیں تو اب یہاں بھی موجود ہیں جہاں گھر کے بزرگ اس تکلیف دہ زندگی اور طعن تشنیع کی اذیت سے زیادہ پرسکون وقت کاٹتے ہیں جو گھروں میں بیٹھ کر گزرتا ہے جہاں ان کی چارپائی کمرے سے صحن میں، صحن سے ڈیوڑھی میں اور پھر گلی میں آ جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں برطانوی ہائی کمیشن کے زیراہتمام برطانوی فوڈ فیسٹول کے سلسلے میں کراچی کے بعد اسلام آباد میں بھی اس فیسٹول کا انعقاد ہوا جس کے میزبان فلپ بارٹن تھے۔ گورے فنکار پاکستانی انداز سے موسیقی پیش کر رہے تھے اور پاکستانی گوروں کے روایتی کھانوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ پارلیمنٹرین بھی تھے۔ اسلام آباد میں متعین سفارتی برادری کے ارکان بھی، میڈیا کے نمائندے اور شاہد آفریدی سمیت بعض کھلاڑی بھی۔ اس خوشگوار تقریب میں فلپ بارٹن نے سانحہ پشاور کو یاد رکھا اور اختتام میں تشکر کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ تقریب کے دوران ایک ’’لاٹری کوئز‘‘ کا مقابلہ بھی تھا۔ سوال یہ تھا کہ برطانوی شہریوں کی مرغوب اور پسندیدہ ترین خوراک کیا ہے۔ فش اینڈ چپس، بھرپور انگلش ناشتہ یا سالن (CURRY) شرکاء کی بڑی تعداد نے ’’فش اینڈ چپس‘‘کو ٹک مارک کیا لیکن جواب (CURRY) سالن تھا اور اس ڈش کو ’’قومی ڈش‘‘ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔
اس بارے میں برطانوی ہائی کمیشن کے برادرم عمران رانا نے بعض شرکاء کو فش اینڈ چپس کا دلچسپ اور معلوماتی پس منظر بھی بتایا جس کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں جب اسکاٹ لینڈ کے تمام مرد جنگ میں حصہ لینے کیلئے محاذ پر چلے گئے تو وہاں نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا۔ اس حد تک کہ اشیائے خوردونوش کی دستیابی بھی ممکن نہ رہی ان حالات میں اسکاٹش خواتین کو میدان عمل میں آنا پڑا جو وہاں آلوؤں کے کھیتوں میں کھیتی باڑی کرتیں اور قریبی دریا سے مچھلیاں پکڑ کر آلوؤں کے ساتھ انہیں خوراک کا حصہ بناتیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری اور جب حالات معمول پر بھی آ گئے تو لوگ ’’فش اینڈ چپس‘‘ کے عادی ہو چکے تھے اور یہ اُن کی خوراک کا حصہ بن گیا تھا۔ اسی باعث یہ تاثر آچ بھی پایا جاتا ہے کہ برطانیہ کی قومی ڈش فش اینڈ چپس ہے۔ (شکریہ رانا عمران)
تقریب میں پٹرول کی عدم دستیابی، گیس کی بندش اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر جہاں بعض شرکاء نے خوب خوب دل کی بھڑاس نکالی وہاں ذائقہ بدلنے کیلئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ ریحام خان کا تذکرہ بھی ہوا اور بعض غیرملکی مہمانوں نے بھی اس موضوع میں سننے کی حد تک خاصی دلچسپی اور تجسس کا مظاہرہ کیا.... ایک بھارتی جریدے کے مطابق معروف ہندو جوتشی نے عمران اور ریحام کی شادی کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے پیشگوئی کی ہے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کا منصب ریحام خان کے قسمت کے ستارے کی وجہ سے حاصل کر پائیں گے۔ دونوں کے ایک ہونے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کے بھونچال میں بھی کمی آئے گی اور ریحام خان اپنے نئے شوہر عمران خان کے لئے خوش قسمت ثابت ہوں گی۔ فطری سی بات ہے بلکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ریحام خان نہ صرف خواہش رکھتی ہیں بلکہ وہ نجی دوستوں میں اپنے اس یقین کا اظہار بھی کر چکی ہیں کہ جلد یا بدیر وہ پاکستان کی ’’فرسٹ لیڈی‘‘ ہونگی۔ خواہش رکھنے یا خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں.... اگر محض خوف اور خدشے کے اس مفروضے کی بنیاد پر خواب دیکھنے ہی چھوڑ دیئے جائیں کہ.... اکثر خوابوں کی تعبیر اُلٹی ہوتی ہے یا پھر مرزا غالب کے شہرہ آفاق شعر (گھر اُجڑے کی تحریف کے ساتھ)؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر ’’گھر اُجڑے‘‘
کے خدشے کے پیش نظر خواہشوں سے ہی کنارہ کشی کر لی جائے تو زندگی بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہو جائے۔
اب ایک طرف تو ریحام خان کی خواہش اور خواب ہیں جنہیں سوچنے اور دیکھنے کا انہیں پورا پورا حق ہے۔ہندو جوتشی کی پیشگوئیاں ہیں اور دوسری طرف عمران خان کے مخالفین کا وہ طبقہ ہے جوان کی شادی اور بالخصوص سانحہ پشاور کے چالیس دن پورے ہونے سے قبل دولہا بننے اور شادی کی تقریب برپا کرنے پر انتہائی سیخ پا ہیں۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ صرف وہ ٹی وی اینکرز ہی نہیں جنہیں ریحام خان کی اتنی جلدی اتنی زیادہ مقبولیت پسند نہیں آئی بلکہ غیرسیاسی گھریلو خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ بھی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ دوسری بیوی کی حیثیت میں ریحام... عمران خان کیلئے کسی طرح بھی خوش بخت ثابت نہیں ہوں گی لیکن اپنے اس خیال کا اظہار دعوے کے انداز میں کرنے والی ان خواتین کے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں اور نہ ہی جواز‘ بس مفروضے ہی ہیں۔ اسی طرح اُن کے مخالفین یہ دعویٰ کر رہے ہیں گزشتہ دنوں جب یہ نوبیاہتا جوڑا پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں شہید بچوں کے ساتھیوں اور اُنکے والدین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے وہاں گیا تو اُنہیں اسکول کے باہر شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا‘ اُن کا راستہ روکا گیا اور کے پی کے میں جہاں ان کی جماعت کی حکومت ہے پہلی مرتبہ انہیں گو عمران گو کے نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے بعض مخالفین تو سیاسی انتہاپسندی کی اس سطح پر چلے گئے ہیں کہ انہوں نے ایسے دوسرے واقعات کو یکجا کر کے عنقریب عمران خان کے ’’سیاسی زوال‘‘ کی پراعتماد پیش گوئی کر دی ہے۔
خواتین خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہوں، کسی بھی خطے میں رہتی ہوں ، کوئی بھی زبان بولتی ہوں اور ان کا منصب و رتبہ خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو حسد یا پھر رشک کا جذبہ بہرحال اُن میں موجود ہوتا ہے.... یہ الگ بات کہ اس کا اظہار وہ کس انداز سے کرتی ہیں، جو باوقار بھی ہوسکتا ہے اور سطحی بھی، اگر کرکٹ کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھنے والا 62 سالہ ہیرو جس سے شادی کی خواہش رکھنے والی خوش شکل اور کم عمر لڑکیوں کی بھی کمی نہ ہو‘ اگر وہ 43 سالہ ایک ایسی خاتون سے شادی کرلیتا ہے جس کے تین بچے بھی ہوں تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ لیکن حاسدین اس پر بھی معترض ہیں کہ ایک دہائی تک غیرشادی شدہ زندگی گزارنے والے کپتان نے شادی کیلئے ایک ایسی ہی خاتون کا انتخاب کیوں کیا جس کی پہلی شادی صرف19 سال کی عمر میں ہوگئی تھی.... حسد کی نہ تو کوئی منطق ہوتی ہے.... اور نہ ہی کوئی علاج۔