آج اسلامی ملکوں میں خصوصاً اور پوری دنیا میں عموماً جو ماردھاڑ اور قتل وغارت گری ہورہی ہے ،اس کے اسبا ب کیا ہیں؟ کون سا وہ مائنڈ سیٹ ہے جو پوری دنیا کو مشرف بہ اسلام کرنا چاہتا ہے؟ کہاجاتا ہے کہ دہشت گردی سے لے کر انتہا پسندی تک سب کو غذا برصغیر کے دینی مدارس فراہم کررہے ہیں؟ مدارس میں پڑھایاجانے والا وہ نصاب ہے جس میں رواداری کا درس نہیں دیاجاتا، بلکہ پوری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کا ذہن دیاجاتا ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے یا حقائق کچھ اور ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ کیا دوسرے مذاہب اور فرقوں کو مارنے کا حکم اسلام نے دیا ہے یا نہیں؟ کیا جہاد حکومت کی سرپرستی میں ہوتا ہے یا اس کی اجازت کے بغیر بھی ہوسکتا ہے؟ اگر اس کے بغیر بھی ہوسکتا ہے تو پھر اس کی حدود وقیود کیا ہوں گی؟ کیا اسٹیٹ کے خلاف مسلح جدوجہد کا نظریہ درست ہے یا نہیں؟یہ مائنڈ سیٹ کس نے دیا کہ ’’جو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ ا حکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں،ظالم ہیں ،فاسق ہیں۔‘‘ لہٰذا ان کے خلاف مسلح جہاد اور ماردھاڑ کرنا لازم ہے؟ کیا ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا جو ملک مسلمان ہو وہاں پر اسلام کا نافذ ہونا بھی ضروری ہے یا نہیں؟ کیا قومیت کی بنیاد اسلام ہے یا کچھ اور بھی ہوسکتی ہے؟ بانیانِ پاکستان ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے یا پھر اسلامی فلاحی ریاست؟‘‘آئیے ان سوالات پر بحث کرتے ہیں۔
قرآن نے دنیا کو انسانوں کی دو ملتیں بتائی ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت ہیں اور کافر دوسری ملت ہیں، چنانچہ قرآن کی سورۃ التغابن کی دوسری آیت ہے: ’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔‘‘ دیکھیں!قرآن نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں کافر اور مومن میں تقسیم کیا ہے۔ رنگ اور زبان، نسب وخاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے۔ اختلافِ رنگ وزبان اور وطن وملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں۔ کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ قرار نہیں دے سکتا۔ زمانۂ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا۔ اسی طرح ملک و وطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قرار دیا۔ اسی طرح کفار کسی ملک وقوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ایک قوم ہیں۔ایمان وکفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی۔اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہے تو اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہو سکتا ہے۔ بخلاف نسب وخاندان، رنگ وزبان اور ملک ووطن کے کہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنا نسب بدل دے یا رنگ بدل دے۔ زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان ووطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عام طورپر اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں، خواہ کوئی ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں آباد ہوجائے۔ یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصے میں مشرق ومغرب، جنوب وشمال، کالے گورے، عرب عجم کے بے شمار افراد کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا۔ مسلمانوں کے بارے میں سورۃ الحجرات میں فرما دیا گیا: ’’دنیا کے مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں، چاہے ان کی زبانیں اور نسلیں الگ الگ ہوں، مقامات جدا جدا ہوں، رنگ ان کے جدا ہوں لیکن سب بھائی بھائی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہی تعلیم دی تھی۔ قریش سے تعلق رکھنے والے ابوجہل سے جنگ کی اور افریقہ سے آئے ہوئے بلال حبشیؓ کو سینے سے لگا لیا۔ رُوم سے آئے ہوئے صہیبِ رومی ؓاور ایران سے آئے ہوئے سلمان فارسیؓ کو اپنے دامن محبت میں جگہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسل اور وطن کے لوگوں سے اسلام کی بنیاد پر جنگ کرکے بتادیا کہ قومیت اور ملت دین کے نام پر قائم ہوتی ہے۔ فقہاء اور علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور ایک قوم ہیں اور دنیا بھر کے کافر الگ ملک اور قوم ہیں۔علامہ اقبالؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی نہیں ہوسکتے بلکہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
مسلم لیگ کی تمام دستاویزات محفوظ ہیں،مفتی شفیع ؒ کا وہ تاریخی فتویٰ بھی محفوظ ہے جو تحریک ِپاکستان کے دوران دیا گیا تھا۔ جس میں ہندوستان کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کے لیے ’’دارالاسلام ‘‘کے قیام کی ضرورت اور اس کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے حصول کے لیے مسلمانوں کو تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ فتویٰ مسلم لیگ کے قائداعظمؒ کے حکم پر 1945ء میں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کیاگیا۔ یہ تحریکِ پاکستان کی اہم ترین دستاویز ہے، اس کا مطالعہ حقیقت ِحال کے بہت سے پہلوئوں کے لیے کافی ہے۔ دارالاسلام کے حصول کی جدوجہد اور اس کے لیے مفتی شفیعؒ کے فتویٰ کو بنیاد بناکر دیکھا جائے تو یہ پوری بحث سمیٹی جاسکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دارالاسلام ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہوتی ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودِ مدینہ سے میثاق ِمدینہ کیا تو اس میثاق میں بھی آپ کو فیصلوں کے معاملے میں آخری مقتدر ہ یعنی ’’سپریم اتھارٹی ‘‘تسلیم کیا گیا تھا۔ تمام تنازعات، اختلافات میں آپ کا فیصلہ اٹل تسلیم کیا گیاتھا۔امریکا سمیت دیگر سیکولر ریاستوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ سیکولر ریاستیں ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی کی آزادی کی بنیاد ’’مذہب‘‘ کبھی نہیں رہا۔ پاکستان کے بارے میں یہ کہنا اس لیے مناسب نہیں لگتا، کیونکہ پاکستان کی بنیادہی اسلام تھی۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب والے اگر اپنی ریاستوں سے مذہب کو دیس نکالا دیتے ہیں، اس میں وہ حق بجانب کہلائے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کی شریعت کا کوئی باوثوق مذہبی قانون نہیں ہے۔ ایک ریاست کو کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ریاست کے خدوخال کیا ہوں؟ موسیٰ یا عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی کوئی تعلیمات اس دنیا میں موجود نہیں جن کی بنیاد پر یہودی یا عیسائی دعویٰ کرسکیںجبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے پاس پورا فلسفہ حیات ہے۔ ایک کامیاب ریاست کو چلانے کے لیے سیکڑوں اور ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ پھر یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ اس پر گواہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کے ادوارِ حکومت سے بڑھ کر اس کی دلیل کیا ہوسکتی ہے؟ ان لوگوں نے کبھی نہیں کہا کہ اسلام الگ ہے اور ریاست الگ۔ ’’ریاست کا کوئی مذہب ہوتاہے یا نہیں؟‘‘ یہ اشکال اس وجہ سے ہوتا ہے،کیونکہ اسلامی ریاست کا تصور ہمارے سامنے نہیں ہے، ہمارے ذہنوں سے محو ہوگیا ہے۔ اسلامی مسلح عسکری جماعتوں نے اسلامی ریاست کا جو تصور لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھایاہے اس کی وجہ سے دنیا پریشان ہے۔ کیا خلافت راشدہ کے دور میں ریاست کا مذہب نہیں تھا؟ کیا عمر بن عبد العزیز کے دور میں ریاست کا مذہب نہیں تھا؟ یہ تمام خرابیاں شاید ہماری موجوہ حکومتوں اور ہم مسلمانوں کی نااہلی کے سبب پیش آرہی ہیں۔ اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ۔
اسلامی ریاست کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزاریں بلکہ ہمیں تو قرآن وسنت نے یہ تعلیم دی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہمیشہ خیر خواہی اور حسنِ سلوک کا معاملہ کرو۔ تجارتی و سیاسی معاملات میں جائز اور معقول حد تک باہمی تعاون سے اور صلح جوئی سے کام لو۔ معاہدات اور عدل وانصاف کی پابندی کرو بلکہ جو غیر مسلم ہمارے ملک کے باشندے ہیں یا جو باہر سے عارضی طور پر قانونی طریقے سے یہاں آکر رہیں، ان کی تو جان ومال اورآبرو کی حفاظت یہاں کی حکومت اور مسلم معاشرے کی قانونی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنی عبادات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ان کا پرسنل لاء بھی قانونی طور پر آزاد ہے۔ اس میں کسی مسلمان کو کسی قسم کے ردو بدل کی ہرگز اجازت نہیں اور ان تمام امور کی ضمانت خود ہمارے 1973ء کے آئین نے بھی دے رکھی ہے۔ اسلام میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔اسلام کے بہت سے قوانین غیرمسلموں پر لاگو نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے اسلام قبول نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی زور زبردستی نہیں اور اسلامی حکومتوں میں انہیں مکمل تحفظ بھی حاصل رہا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں لیکن جس نے اسلام قبول کیا، اس کے لیے ضرور اسلام کچھ ضابطے مقرر کرتا ہے ۔ یہ ضابطے اس کی بقا کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ ظلم کے زمرے میں نہیں آتے۔