• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور دل ِ،تو پنجاب ، پاکستان کے جسم میں ‘ سینے کی مانند ہے ۔ یہاں کے باسی صاحبِ دل نہیں ‘ بڑے دلوں کے بھی مالک ہیں۔ ان دلوں میں وہ سارے پاکستان ہی نہیں بلکہ سارے جہاں کا غم سموئے رکھتے ہیں۔ یہ دل تعصب اور عناد کے منفی جذبات سے پاک اور محبت کے جذبے سے لبریز ہیں۔ یہاں کے مکینوں نے ہر صوبے کے رہنے اور ہر زبان کے بولنے والوں کے لئے دلوں کے دروازے وا کئے رکھے تو دوسری طرف ان کے بازار ہر پاکستانی کے لئے کھلے رہے ۔ انہوں نے سندھ سے تعلق رکھنے والے قائد اعظم کوبھی لیڈر مانا‘ سندھی بھٹو کو بھی ‘ پختون سراج الحق کوبھی‘ پختون مولانا فضل الرحمٰن کو بھی اور خان عمران خان کو بھی۔ لسانی تعصب کی بنیاد پر یہاں سندھ سے بھی لاشیں بھجوائی گئیں اور بلوچستان سے بھی لیکن یہاں سے اس بنیاد پر کبھی کسی غیرپنجابی کی لاش نہیں بھجوائی گئی۔ محنت اور محبت عام پنجابی کا وصف تو پاکستانیت ان کی پہچان ہے۔ پاکستان کے محافظ ادارے یعنی فوج کو سب سے زیادہ افرادی قوت یہیں سے ملتی ہے اور یہی صوبہ ہے کہ جہاں لسانیت اور تعصب کی بنیاد پر جنم لینے والی کسی تحریک کو کبھی پذیرائی نہیں مل سکی۔ مظلومیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو جتنا محروم اور مظلوم ‘ عام پنجابی ہے ‘ شاید ہی کسی دوسرے صوبے کا باسی ہو۔اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور پنجاب کے بعض جاگیردار‘ بعض سرمایہ دار‘ بعض سرکاری افسر اور بعض پولیس افسر خوبیوں میں دوسری قومیتوں سے بھی آگے ہوں گے لیکن مجموعی طو رپر یہاں کا جاگیردار ‘ سب سے زیادہ جابر‘ یہاں کا سرمایہ دار ‘سب سے زیادہ فرعون نما‘ یہاں کا افسر سب سے زیادہ بےحس‘ یہاں کا پولیس افسر ‘ سب سے زیادہ سفاک ہے جس نے عام پنجابی کو سب سے زیادہ مظلوم بنا رکھا ہے لیکن پنجاب کی مظلومیت کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان سب قربانیوں اور اوصاف کا حامل ہوکر بھی چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے اسے نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور چھوٹے صوبوں میں اس کو گالی دینا ایک فیشن بن گیا ہے ۔ بلوچستان کی محرومیوں ‘ سندھ کی مصیبتوں یا پھر خیبرپختونخوا اور فاٹا کے المیوں میں عام پنجابی کا کوئی قصور نہیں لیکن وہاں کے دانشور قلم اٹھاتے اور قوم پرست زبان چلاتے ہیں ‘ تو پنجابی اور پنجاب کونشانہ بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت اس منفی رجحان میں مزید اضافہ ہورہا ہے اور یہ منحوس ’’سعادت‘‘ ان لوگوں کو حاصل ہورہی ہے جو اپنے آپ کو میڈ ان پاکستان کہتے تھے لیکن کوئی ان کو پنجاب اور پاکستان کے ساتھ اس ظلم کی طرف متوجہ کرے تو ان کے ترجمان انگلی اٹھانے والے کو لسانی تعصب کے شکار ہونے کا الزام دیتے ہیںحالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ حکمرانوں کی اس روش کی بنیاد پنجاب نہیں بلکہ خاندان‘ کاروباری مفادات اور دو تین شہر ہیں لیکن باہر اسے پنجاب پروری تصور کیا جارہا ہے ۔ سندھ میں تو پھر بھی پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے جبکہ بلوچستان میں ایک پختون اور ایک بلوچ قوم پرست جماعت کی چاندنی ہوگئی ہے ‘ اس لئے وہاں یہ منفی جذبات زیادہ فروغ نہیں پارہے ہیں لیکن پختون بلٹ میں تو خطرناک حد تک پنجاب کو گالی دینے کا فیشن عام ہورہا ہے ۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے روئیے کی وجہ سے بھی پختونوں کا احساس محرومی بڑھ رہا ہے ۔ انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے وہاں کے ایشوز کو سیاست کی بنیاد بنا رکھا تھا اور اس کی وجہ سے پختون بیلٹ کے لوگوں نے ووٹوں کی بارش کرکے قومی سیاست میں تحریک انصاف کو قابل ذکر پوزیشن دلوادی لیکن اب تحریک انصاف کی سیاست پنجاب کے چار حلقوں کی یرغمال ہے اور اس کی سیاست سے پختون بیلٹ کے ایشوز جیسے ڈرون حملے‘ فوجی آپریشن اور پاک چائنا ٹریڈ کاریڈور جیسے ایشوز غائب ہوگئے ہیں۔ لڑانے اور دوسروں کی عزتیں اچھالنے کا کام شوکت یوسف زئی‘ علی محمد خان اور مراد سعید جیسے پختونوں سے لیا جارہا ہے لیکن فیصلہ سازی کا اختیار شاہ محمودقریشی‘ جہانگیر ترین اور شیریں مزاری یا پھر ان کے مختاروں کے پاس ہے حالانکہ یہ تینوں سرائیکی بیلٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا پارٹی پر قبضہ ان کے پنجابی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہے۔ لیکن دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پختونوں سے پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا انتقام لیا جارہا ہے ۔ اعتراض کرنے والے دلیل یہ دے رہے ہیں کہ وزیراعظم تو ہیں ہی پنجاب کے لیکن تمام اہم وزارتیں (خزانہ‘ پانی و بجلی‘ پٹرولیم ‘ دفاع‘ داخلہ‘ پلاننگ ‘ ریلوے اور اطلاعات وغیرہ) ایک مخصوص علاقے کے لوگوں کے پاس ہیں(حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک صاحب ہر کمیٹی کے چئیرمین اس وجہ سے نہیں کہ وہ پنجابی ہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ وہ رشتہ دار ہیں) ۔آپریشن ضرب عضب جو کہ پختونوں کی سرزمین پر ہورہا ہے کی نگرانی کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی ہے ‘ اس میں ایک بھی پختون نہیں ۔ جو پانچ چہیتے روزانہ ایکشن پلان پر غور کے لئے اجلاس کرتے نظر آتے ہیں ‘ ان میں سندھ‘ بلوچستان یا پختونخوا کا کوئی نمائندہ نہیں۔طالبان سے مذاکرات بھی ہوئے اور ان کے خلاف آپریشن کا آغاز بھی ہوا لیکن پختونخوا اورفاٹا کے مسلم لیگیوں سے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ یہ سوچ مسلم لیگ(ن) کے اندربھی سرائیت کرگئی ہے اور یہ سوچ فروغ پاگئی کہ اس جماعت میں پشتو بولنے والے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ نمائشی طور پر اقبال ظفر جھگڑا کو جنرل سیکرٹری بنادیا گیا تھا لیکن انہیں وزیراعظم تک پہنچنے کے لئے وزیراعظم کے رشتہ داروں کی منتیں کرنی پڑتی ہیں ۔ پیر صابر شاہ جو خیبرپختونخوا کے صدر ہیں ‘ مسلم لیگ(ن) کے اقتدار کے بعد لوگوں سے چھپتے پھررہے ہیں کیونکہ وزیراعظم تو کیا کسی وفاقی وزیرتک بھی ان کی رسائی نہیں ہے ۔ پشاور میں ایک سال کے وقفے کے بعد مسلم لیگ(ن) کی تقریب میں ان کے منہ سے نکلنے والا گونواز گو کا نعرہ تو بظاہر انہوں نے نادانستگی میں لگایا تھا لیکن وہ حقیقتاً ان کے دل کی آواز تھی۔ فرید طوفان پارٹی چھوڑ کر دوبارہ بیگم نسیم ولی خان کے قدموں میں بیٹھ گئے ہیں۔ خواجہ محمد خان ہوتی ‘ ہر جگہ کہتے پھررہے ہیں کہ ہماری پارٹی پاکستان کی نہیں پنجاب کی پارٹی ہے ۔ اب تو آخری بچ جانے والا مسلم لیگی یعنی انجنیئرامیرمقام بھی میدان میں نکلنے والے ہیں۔ پی ٹی آئی کی لہر میں بھی انہوں نے اپنے حلقے کو اپنے بھائی کے ذریعے جتوادیا جبکہ ان کے گروپ کے شہاب الدین خان نے باجوڑ ایجنسی سے کامیابی حاصل کی لیکن پڑھے لکھے شہاب الدین خان کو کابینہ میں نمائندگی دی گئی اور نہ امیرمقام کے بھائی کو۔ میری معلومات کے مطابق اب امیرمقام نے تنگ آکر وزیراعظم صاحب کو اتمام حجت کے طور پر ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے مشاورت سے مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شکایت بھی کی ہے کہ پختونوں کیلئے مسلم لیگ (ن) میں رہنا مشکل بنایا جارہا ہے ۔ یہ تو خیرہر کوئی جانتا ہے کہ وزیراعظم صاحب اب کی بار حکومت اس نیت کے ساتھ کررہے ہیں کہ یہ ان کی آخری باری ہے ۔ اس لئے وہ عوام کے جذبات یا ہم جیسوں کے خیالات کو توجہ دینا‘ وقت کا ضیاع اور اقتدار کے مزے میں خلل سمجھتے ہیں لیکن نہ جانے وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ موجودہ عرصہ اقتدار کی تکمیل کے لئے بھی انہیں کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ وہ اور ان کے مشیران خاص پشاور میں عمران خان کا گوعمران گو کے نعروں کے ساتھ استقبال سے بہت خوش ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ عمران خان کا ان نعروں کے ساتھ استقبال اگر عام شہریوں نے کیا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب پشاور میں میاں صاحب کا استقبال خود ان کے پارٹی کے لوگ بھی گو نواز گو کے نعروں کے ساتھ کریں گے ۔ وہ وقت دور نہیں جب پیر صابر شاہ ‘ اقبال جھگڑا کے ساتھ مل کر گونوازگو کا نعرہ لگائیں گے اور دراز قد امیرمقام اسی شدت کے ساتھ گو نواز گو کے ساتھ جواب دیں گے ۔ وہ وقت بھی دور نہیں جب پنجاب کے لوگ حکمرانوں کا گریبان اس بنیاد پر پکڑیں گے کہ ان کی اقربا پروری کی وجہ سے پورے پنجاب کو گالی پڑتی رہی اورشاید پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت اس احساس کا ایک اظہار ہے۔
تازہ ترین