بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکہ کے صدر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے نئی دہلی پہنچے۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے بھارتی قیادت سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے دوران اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اسکے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھارت کے اوپر سے نیوکلیئر ٹریکنگ سسٹم ہٹانے کا اعلان کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت کونیو کلیئر سپلائی گروپ میں بھی شامل کر لیا گیا۔ باالفاظِ دیگر امریکہ بھارت کو سول ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے ایٹمی پلانٹ فراہم کریگا۔ امریکہ کافی عرصے سے اس بات کا خواہش مند تھا کہ وہ بھارت کو جوہری ٹیکنالوجی منتقل کرے ، لیکن اس کے پیش نظر NPTپر دستخط اور بھارت کا ٹریکنگ سسٹم کے اندر ہونا آڑے آرہا تھا۔ 25جنوری کو برصغیر کی نئی تاریخ لکھی گئی کہ جب امریکہ اور بھارت کے مابین تمام رکاوٹیں ختم ہوئیں اور امریکہ نے بھارت کو توانائی کے حصول کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی نہ صرف یقین دہانی کروائی بلکہ بھارت پر سے ہر قسم کی قدغن ہٹانے کا اعلان کیا، جبکہ دوسری جانب برصغیر کا ایک اور ملک ہمارا وطن پاکستان جس نے روس کو شکست دینے کیلئے امریکہ کا ساتھ دیا، سینکڑوں نہیں ، ہزاروں نفوس نے قربانیاں دیں، وہ تاریکی میں ڈوب گیا اور اس روز پاکستان کا 90فیصد حصہ اندھیرے میں گم ہوگیا تھا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ جب افغانستان میں لڑائی لڑی جارہی تھی تو پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور بھارت کمیونسٹ بلاک میں شامل ہوتے ہوئے روس کا اتحادی تھا۔اور آج جب اسی افغانستان کی تعمیر کا وقت آیا تو امریکہ کہہ رہا ہے کہ تعمیر افغانستان کفلئے اسے ایک پارٹنر کی تلاش تھی جو ہندوستا ن کی شکل میں اسے مل گیا ۔ پالیسی میں یہ تبدیلی چند دنوں کی سفارت کاری کا شاخسانہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے طویل سفارتی کوششیں شامل رہیں کیونکہ امریکہ جیسا ملک اپنی خارجہ پالیسی کو راتوں رات تبدیل نہیں کیاکرتا بلکہ اس کے پیچھے اس کے طویل مقاصد ہوتے ہیں۔ اگر آج اس نے بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت میں اپنی حمایت عطا کی ہے تو یہ معمولی تبدیلی نہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بڑی شکست ہے۔ ہندوستان طویل عرصے سے یہ کوشش کر رہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کے لئے امریکہ کی حمایت حاصل کر لے۔ بالآخر بھارتی سفارت کار یہ منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب اس نئی بدلی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا ملک کس قسم کے چیلنجوں کا سامنا کرتا ہے۔ معاشی اعتبار سے ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ توانائی کاسنگین بحران ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ ایسے میں دنیا کی واحد سپر طاقت ہمیں تنہا چھوڑ چکی ہے۔ آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ ماضی کا سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب تک ہم کسی کے اتحادی صرف اس شرط پر بنے رہیں گے کہ ہم اس کا ساتھ دیں گے تو وہ ہمارا ساتھ دے گا، تو بین الاقوامی سطح پر یہ کلیہ ناکام ہوچکا ہے۔ کیونکہ ہر ملک اور ریاست کے نزدیک اپنی قوم کا تحفظ اور اس کی بالادستی پیش نظر ہوتی ہے۔ کل بھارت نے یہ فیصلہ کیا کہ روس کے ساتھ جانے میں اس کی بہتری ہے تو اس نے بہترین مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی ٹیکنالوجی روس سے حاصل کی۔ آج اپنی طاقتور اور ترقی پاتی ہوئی منڈیوں کے بل پر اس نے منوایا کہ یہ دنیا کی ایک بہت بڑی معاشی، تجارتی اور دفاعی طاقت ہے اوراس کو امریکہ نے تسلیم کرتے ہوئے وہ مقام دیا۔ یوں تو پاکستان کے حکمران بین الاقوامی دورے کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے لیکن آج اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ہمارے وفود اور حکمران قرب و جوار کے ممالک کا دورہ کرتے لیکن بد قسمتی سے یہ کام پاکستان کی فوج سرانجام دے رہی ہے۔ برطانیہ میں جو کردار آئی ایس پی آر نے ادا کیا وہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کا تھا۔ اور جو کام آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کیا وہ بنیادی طور پر وزیرا عظم پاکستان اور وزیر خارجہ کا تھا۔ جس وقت بھارت اس تاریخی دور سے گزر رہا تھا، اس وقت بھی آرمی چیف پڑوسی ملک چین کے دارالحکومت میں موجود تھے اور وہ کام کر رہے تھے جو ان کا نہ تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جب بھارت کے نیوکلیئر پلانٹ سے ٹریکنگ ڈیوائس ہٹا دی جائے گی اور وہ نیوکلیئرسپلائی گروپ کا ممبر ہوجائے گا اور جلد یا بدیر سلامتی کونسل کی رکنیت حاصل کرکے ویٹو کا اختیار بھی حاصل کر لے گا تو ایسے میں پاکستان کے دفاع اور تجارتی و معاشی مفادات کہاں اور کیسے پورے ہوں گے؟ کیا بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو جاری رکھتے ہوئے ریاست پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا؟ کیا کشمیر کاز زندہ رہ سکے گا کیونکہ اس پر منظور ہونے والی قراردا د سلامتی کونسل کے لئے توجہ کا باعث اس لیے نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی امن کے لئے خطرہ تصور نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ ایسا سوچتے تو بھارت کے نیوکلیئرپروگرام پر سے Checkنہ ہٹایاجاتا۔
برصغیر میں ہونے والی تبدیلیوں نے یہ ثابت کردیا کہ ہماری ساٹھ ستر سالہ خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور ہمیں اس کا از سر نو تعین کرنا ہوگا۔ اور ان خطوط پر اپنی خارجہ پالیسی کو وضع کرنا ہوگا تاکہ ہم ان بدلتے ہوئے حالات میں کم از کم اپنی بقاء کی جنگ تو لڑسکیں گو کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے سنگین داخلی مسئلے سے دوچار ہے اور اس سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے کڑوے گھونٹ بھی پئےجا رہے ہیں۔ غیر فطری آئینی ترامیم بھی منظور کی جارہی ہیں اور ایسے سخت فیصلے کیے جار ہے ہیں جانسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آڑے ہاتھوں لے سکتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں سب سے پہلے دہشت گردی کے بھنور سے نکل کر علم کے میدانوں میں سنگ میل عبور کرنا ہوں گے۔ تعلیم، صحت اور داخلی سلامتی کی ایسی پالیسیاں وضع کرنا ہوں گی جو اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرسکیں۔ تاریخ کا طالب علم اس بات سے بخوبی آشنا ہے کہ 80ء کی دہائی میں برصغیر کے دو شہر ، ایک فیصل آباد، دوسرا بنگلور منتخب کیے گئے تھے کہ یہ ایشیاء کے مانچسٹر بنیں گے لیکن شاید بنگلور تو کامیاب ہو گیا لیکن پاکستان کا شہر فیصل آباد مانچسٹر نہ بن سکا۔ ان تمام ناکامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اصلاحِ احوال کرتے ہوئے زندگی کے تمام شعبوں میں ہمیں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سیاسی سوچ اس طرح پروان چڑھے کہ خارجہ معاملات میں پوری قوم یکسو ہو اور اس کی عکاسی ہماری سیاسی قیادت کرے۔ 1993ء میں جب بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف سے درخواست کی تھی کہ وہ جنیوا میں کشمیر کا مقدمہ پیش کریں تو انہوں نے معذرت کر لی تھی ۔ اس کے برعکس ہندوستان کے وزیراعظم نے جب اپنے اپوزیشن لیڈر کو کہا کہ جنیوا میں کشمیر کا مقدمہ وہ پیش کریں تو وہ بلا تامل جنیوا جانے کے لئے تیار ہوئے۔ یہی وہ سوچ ہے جو ہمیں کامیابی کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر حیدر آباد ہائوس میں چائے کا کپ پیش کرنا ،مشترکہ طور پر چہل قدمی کرنا، محض علامتی باتیں ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ بھارت اپنی مضبوط متفقہ اور مستقل جاری رہنے والی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اوروہ اس میں کامیاب نظر آتا ہے۔ پاکستان کو بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ نہ امریکہ، نہ روس نہ سعودی عرب، نہ ایران ، صرف اور صرف مملکت خداداد پاکستان کا مفاد مقدم ہو اور پاکستانی قوم کی خوشحالی، ترقی اور دنیا میں بہتر مقام حاصل کرنے کی لگن ہی ہمیں دنیا میں کامیاب قوم بنا سکتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں یکجان ہو کر آگے کی جانب دیکھنا ہوگا۔