پاکستانی قوم 67سال سے مسیحا کی تلاش میں سرگرداں ہےجو ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نجات دلاسکے۔مشہور مؤرخ Toynbeنے لکھا ہے کہ مسیحا کی پیدائش کیلئے درست وقت اور صحیح انسان کا امتزاج ضروری ہے جبکہ پاکستان کے کرپٹ نظام اور آمرانہ طرز جمہوریت میں مسیحا کی پیدائش ممکن نہیں۔ موجودہ نظام میں صدر پاکستان کی حیثیت ایک شو پیس کی ہوتی ہے جسے وزیر اعظم نامزد کرتا ہے اسلئے وہ قطعی بے اختیار ہوتا ہے جبکہ وزیر اعظم کا انتخاب بھی عوام کے براہ راست ووٹ سے نہیں بلکہ اسمبلی اراکین اور چھوٹی جماعتوں کی حمایت کا مرہون منت ہوتا ہے، گورنر مرکزی حکومت کی طرف سے نامزد ہونے کے باعث صوبے میں بے اختیار ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں فوجی مداخلت کے خطرات کے باعث سویلین حکمران خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور اپنے فیصلے کرنے میں بے اختیار ہوتے ہیں۔ آج ملک میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، سراج الحق اور ڈاکٹر طاہر القادری قوم کی مسیحائی کے دعویدار ہیں لیکن کیا یہ قائدین ملک کو ان گنت مسائل سے نجات دلا سکیں گے؟۔ کئی عشروں پر اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی اور طویل عرصے تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بر سر اقتدار رہنے کے باوجود ملک کے حالات دگرگوں رہے جبکہ چھوٹی جماعتیں قوم کیلئے مسیحائی کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
شیخ سعدی کا قول ہے کہ اگر کوئی مسافر صحیح راستے سے بھٹکنے کے باعث غلط راستے پر چلتا رہے تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنی راہ سے اتنا دور ہوتا جائےگا کہ جس کے بعد وہ صحیح راستے پر واپس بھی آنا چاہے تو نہیں آسکتا۔ پاکستان کے تمام ادارے زوال پذیر ہیں، سارا ملک بیرونی امداد کے آکسیجن ٹینٹ میں سسک سسک کے جی رہا ہے، آج اگر کوئی مسیحا اتفاقاً آکر ملک کےحالات سدھارنے کی بھی کوشش کرے تو اس کو مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے کئی عشرے درکار ہیں۔ حکمران اور سرکاری اہلکارپولیس گارڈ ز، بلٹ پروف گاڑیوں اور آہنی حصار میں روپوش رہتے ہیں جبکہ بیس کروڑ عوام دہشت گردوں، تخریب کاروں ، بھتہ خوروں اور منشیات فروش گروہوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ 30سال قبل ہمارے ملک کی افغان جنگ میں غیر ضروری طور پر شرکت کےباعث ملک میں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ حاصل ہوا جس کے بعد ہمارے یہاں تخریب کاری کے واقعات رونما ہونے لگے۔ جی ایچ کیو، نیول بیس پر حملہ ،سیاسی و مذہبی جلسے، جلوسوں میں بم دھماکے،ملک کے 800اسکولوں اور حال ہی میں آرمی پبلک اسکول پر حملے تباہی و بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کررہے ہیں۔ ہماری نام نہاد جمہوری جماعتوں میں شخصی، موروثی، آمرانہ اور جابرانہ نظام رائج ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں نہ تو انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں جمہوری عمل پروان چڑھتا ہے جبکہ ان میں تمام عہدے قابلیت و میرٹ کی بجائے ڈکٹیٹرانہ انداز میں پسند و ناپسند کی بنیادپر پُر کئے جاتے ہیں جبکہ انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم کے وقت بھی جابرانہ انداز اپنایا جاتا ہے اس کے مقابلے میں اگر امریکی جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو وہاں موجودہ صدر باراک اوبامہ نچلی سطح سے کامیاب ہوئے اور ہر ریاست میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے ملک کے اکثریتی ووٹوں کے حصول میں کامیاب ہوئے جبکہ امریکہ میں گورنر، سینیٹر اور ایوان نمائندگان بھی عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہوکر قوم کی مسیحائی کا حق ادا کرتے ہیں۔ مسیحا کی تخلیق کیلئے سب سے پہلے منصفانہ انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ پاکستان میں ماضی میں ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے قائدین بیمار ملک میں مسیحائی کے دعویدار رہے لیکن وہ قوم کو پستی کی طرف جانے سے نہ روک سکے۔ موجودہ دور میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، سراج الحق، الطاف حسین، طاہر القادری ملک کو سیاسی جراحت کے ذریعے صحتیاب کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔متذکرہ پہلے دو قائدین متعدد بارملک پر حکمرانی کرچکے ہیں جبکہ جماعت اسلامی اپنی 70سالہ تگ و دو کے باوجود ’’مسیحائی‘‘ کے کردار کے حصول میں ناکام رہی ہے۔ عمران خان قوم کو امیدکی ایک نئی کرن دکھا کر ملکی سیاست میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
پاکستان افرادی قوت، وسیع و عریض زرخیز اراضی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے ، بس اسے دہشت گردی، منشیات، تخریب کاری اور لاقانونیت کے امراض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ایک مسیحا کی ضرورت ہے لیکن مسیحائی کے دعویداروں کو سب سے پہلے ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابی نظام قائم کرنا پڑے گا، بارڈر سیکورٹی نظام کے ذریعے اسلحے اور منشیات کی ترسیل اور نقل و حمل کے راستے مسدود کرنا ہونگے۔ اس کیلئے ضروری ہوگا کہ پاکستان کی سرحدوں کو مکمل طور سے سیل کردیا جائے تاکہ ملک میں اسلحہ و منشیات فروشوں، دہشت گردوں، تخریب کاروں کی آمدو رفت کو روکا جاسکے۔ اگر تاریخی حقائق پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہیروئین اور اسلحے کی تجارت سے حاصل کی گئی دولت سے دہشت گردی کا نیٹ ورک مضبوط ہوا اور آج تخریبی عناصر ریاست کیلئے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ ملکی حالات کے سدھار کیلئے سب سے پہلے ملک سے جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا کیونکہ علم و ہنر سے عاری ذہن کو تخریب کار اور دہشت گرد عناصر برین واش کرکے اپنی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ ملک میں قانون کی حکمرانی، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی، سماجی انصاف اور تعلیم و صحت کی عام آدمی تک بہ آسانی رسائی کے بغیر کوئی حکمران کامیاب نہیں ہوسکتا۔ عوام کو ریلوے اور ٹرانسپورٹ میں سستے سفر کی سہولت مہیا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ اندرونی بیرونی قرضوں سے نجات کیلئے حکومتی سیکریٹریٹ اور سرکاری اداروں میں غیر پیداواری مصارف کم کرنا ضروری ہے۔ بجلی اور پانی کی قلت کے بحران سے نمٹنے کیلئے نئےڈیمز اور ذخیرہ آب تعمیر کرنا اشد ضروری ہے۔ اس میں بعض صوبوں کو تحفظات ہوسکتے ہیں لیکن انہیں دور کرنے کیلئے افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سےکام لیا جائے اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں ان کے تحفظات دور کئے جائیں۔ 1935ءمیں امریکہ میںHoover Damبنایا گیا لیکن اس سے قبل اس کی تعمیر کے خلاف امریکہ کی سات ریاستوں نے اپنے تحفظات پیش کئے جنہیں دور کرکے مذکورہ ڈیم کیساتھ ہی ساتھ پانی کے دو ہزار ذخائر بنائے گئے اورملک سے قلت آب کا خاتمہ کردیا گیا۔ ہمارا ملک جو متعددمعاشی، معاشرتی، سماجی، اخلاقی بیماریوں میں مبتلا رہنے کی وجہ سے انحطاط کا شکار ہے اور اسے ایک مسیحا کی ضرورت ہے جو اس کی تمام بیماریوں کا محنت اور اخلاص سے علاج کرکے اسےرو بصحت کر سکے۔ ملک کے رہنمااور حکمران تو قوم کو عروج پر نہیں پہنچا سکے مگر اب اسے خوداعتمادی اور خود انحصاری کی جزئیات اپنا کر اپنا مستقبل تابناک کرنا ہے، عزت و عظمت کی منازل تک پہنچنا ہے، عظیم قومیں عظیم رہنما ؤں کو جنم دیتی ہیں۔ قوم کو اپنی رہنمائی کیلئے بہت سوچ سمجھ کر انتخاب کرنا ہے ۔