21فروری 2015ء کا دن پاکستانی اسپورٹس میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ یہی وہ دن تھا جب پاکستانی کرکٹ کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی گئی۔اگر قومی کرکٹ ٹیم کا حقیقت پسندانہ موازنہ کیا جائے تو یہ اب تک کی ورلڈ کپ میں سب سے کمزور ٹیم ثابت ہوئی ہے۔ جسے پہلے بھارت نے 76رنز سے شکست دی اور بعد میں ٹورنامنٹ کی ایک کمزور ٹیم یعنی ویسٹ انڈیز جو پہلے آئر لینڈ جیسی ٹیم سے بھی میچ ہار چکی تھی، اس ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کو 150رنز کی عبر تناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، فکر انگیز بات یہ ہے کہ بھارت کے خلاف میچ میں پاکستان کی ٹیم پورے اوورز بھی نہیں کھیل سکی اور 47اوورزمیں ہی آل آئوٹ ہو گئی جبکہ ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیم پاکستان صرف اور صرف 39اوور ز کھیل سکی حالانکہ ابھی 11اوورز کا کھیل باقی تھا جس میں محض ثابت قدمی سے بدترین شکست کو باعزت شکست میں تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ٹیم کو پے درپے ہونے والی شکستوں میں کسی ایک شعبے کا قصور نہیں بلکہ بیٹنگ، بائولنگ حتیٰ کہ فیلڈنگ بھی بری طرح ناکام نظر آئی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں پاکستان ٹیم نے جس طرح آسان کیچ چھوڑے اس نے ٹیم کی کارکردگی پر بہت سے سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔
لیکن میں ان ناکامیوں اور بدترین کارکردگی میں صرف کھلاڑیوں کو ہی ذمہ دار نہیںسمجھتا بلکہ میری دانست میںچیئر مین پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت پی سی بی انتظامیہ بھی اس میں برابر کی شریک ہے۔بورڈ کے تمام مشیران، ڈائریکٹرز، بورڈ آف گورننس ، ٹور مینجمنٹ کمیٹی، ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر، ٹیم منیجر بھی کپتان کے ساتھ ساتھ اس شکست کے ذمہ دار ہیں۔مینجمنٹ کے غلط فیصلوں کے باعث ہمارے ہاں کرکٹ اس وقت ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی شکل اختیار کر چکا ہے جو لمحہ بہ لمحہ روبہ زوال ہے۔اس انحطاط کی ذمہ دارپاکستان و آسٹریلیا میں موجود ٹیم مینجمنٹ ہے جو نہ صرف بے وقوف ہیں بلکہ ان میںقطعاً اہلیت بھی نہیں کہ وہ ٹیم کی قیادت کر سکیں یا اس سطح کے انٹر نیشنل مقابلے کیلئے ٹیم تیار کر سکیں۔ہمیں یہاں یہ بات قطعاً نظر اندازنہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان میں کرکٹ کا فطری ٹیلنٹ موجود ہے۔جسے محض درست رہنمائی اور پالش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی وقت منظر عام پر آ سکتا ہے جب ہم میرٹ اور صرف میرٹ کی پالیسی اپنائیں گے۔
اب عوام کا یہ وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ جس طرح چند ہفتوں پہلے پنجاب میں پٹرول بحران پر ایکشن لیتے ہوئے ذمہ داران کو ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا تھا، اسی طرح موجودہ ٹیم مینجمنٹ کو ، جس نے ٹیم کو پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں سب سے نچلے درجے پر پہنچا دیا ہے، فوری طور پر برطرف کیا جائے اور دو ماہ میں پی سی بی کی از سر نو تشکیل کی جائے اور یہ ذمہ داری ورلڈ کلاس پروفیشنلز کو سونپی جائے۔یہ ردعمل یقینی طور پر عوام میں بھی سراہا جائے گا۔
جہاں تک ٹیم اور کھلاڑیوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عظیم پاکستانی کھلاڑیوں، وسیم باری، جاوید میانداد، محسن حسن خان، عبدالقادر خان ،عامرسہیل وغیرہ کی خدمات لی جا سکتی ہیں اور انہیں فوری طرح پرڈی جی پی سی بی کی حیثیت سے مکمل اختیارات دے کر آسٹریلیا بھجوایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ حکومت کی حسن نیت اس حوالے سے واضح ہے مگرعمل نیت سے کہیں بہتر ہوتا ہے اور اب جبکہ پانی سروں پر سے گزر چکا ہے پوری قوم وزیر اعظم کی جانب سے سخت اور فوری فیصلوں کا انتظار کر رہی ہے اب وزیراعظم کو ذاتی پسند و نا پسند کو پس پشت ڈال کر کرکٹ کے مستقبل کے حوالے سے فوری فیصلے کرنا ہوںگے تاکہ پاکستان میں کرکٹ کا کھویا ہو اسنہری دور بحال ہو سکے۔ ہماری دعائیں اپنی ٹیم کے ساتھ ہیںکہ وہ جلد از جلد اس مشکل وقت سے باہر نکل آئے۔