مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر اہمیت اختیار کئے ہوئے ہیں اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا بحران پیدا ہو رہا ہو یا پیدا ہو چکا ہو ان کی قیام گاہ پر آمد ورفت شروع ہو جاتی ہے۔ مرکزی دروازے سے بھی ۔ عقبی راستوں سے بھی۔ حکومت خود چل کر ان کے پاس جا رہی ہےاور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو انہوں نے بطور خاص اپنے گھر مدعو کیا۔ سینیٹ کے انتخابات تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اور کچھ بعید نہیں شاید پورا مارچ جاری رہے۔ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی بصیرت وبصارت کاایک زمانہ معترف ہے۔فیصلہ کن حالات میں خود کو ناگزیر بنالینا کوئی ان سے سیکھے۔ان کی طرز سیاست پرطنزو تشنیع اور الزامات لگانا توآسان ہے لیکن ان کے موقف کو چیلنج اور استدلال کے سامنےٹھہرنا بڑے بڑوں کا پتہ پانی کردیتا ہے۔عینی شاہدین کا ماننا ہے کہ بڑے بڑے سیاسی کروّفر والے سیاستدان ان سے محاذآرائی کرنے اورمعاملات پرنیچا دکھانے کےلئے ان کے مقابل ہوتے ہیں لیکن۔اُٹھے تو یوں لگا گویا مدرسہ دیوبندکاکوئی پیروکار سلام کے لئے حاضر ہوا تھا۔سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں مولانا صاحب اپوزیشن لیڈر تھے لیکن انہوں نے جنرل صاحب کے غیر آئینی اقتدار کومستحکم کرنے میں جوکردار ادا کیا ان کے پاس اس کا مدلل جواز موجود ہے۔انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دورحکومت میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور اور سابق صدر آصف علی زرداری کی حکومت میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کیوں قبول کی حضرت صاحب کے پاس اس کا’’لاجواب استدلال‘‘ موجود ہے۔پھر میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت میں کشمیرکمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے منسٹرز کالونی میں بنگلہ نمبر22پر اپنا قبضہ دوبارہ کیوں اورکس طرح حاصل کیا۔ اگر کسی میں دم ہے تو وہ حضرت صاحب سے اس پرمکالمہ کرکے دیکھ لے۔یقیناً اسے منہ کی کھانا پڑے گی۔
آئین میں22ویں ترمیم پرحضرت صاحب کاموقف اختلاف رکھنے والوں کی دانست میں غلط سہی لیکن بہت واضح ہے خود کو21ویں ترمیم کازخم خوردہ قرار دینے والے مولانا فضل الرحمان کویقین ہے کہ سینیٹ کے انتخاب کے موقعہ پرآئین میں 22ویں ترمیم درحقیقت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تحریک پران کے ارکان کو ایوان میں واپس لانے کےلئے لائی جارہی ہے۔ اور اسی بنیاد پرانہوں نے حکومت کااتحادی ہونے کے باوجود 22ویں ترمیم میں حکومت کی حمایت سے صاف انکار کردیا۔حکومت کی جانب سے انہیں قائل کرنے کیلئے ایک کوشش کی گئی اور یہ بھاری پتھر اٹھانے کے لئے بھی وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید کا ہی انتخاب کیا گیا جوخواجہ سعد رفیق کاہاتھ پکڑے اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں مولانا صاحب کی سرکاری رہائش گاہ بنگلہ نمبر22میں پہنچ گئے جہاں انہوں نے آئین میں22ویں ترمیم پرحضرت صاحب سے مذاکرات کئے۔ سینیٹر پرویز رشید نے اپنی عملی سیاست کا آغاز راولپنڈی کے گورڈن کالج سے ایک طالبعلم رہنما کی حیثیت سے کیا تھا۔ہر چند کہ وہ مولانا فضل الرحمان سے عمرمیں چند سال بڑےہی ہیں۔لیکن حضرت صاحب کے سامنے انہوں نے طالبعلموں والا طرز عمل ہی اختیار کیا اور عاجزی وانکساری کاپیکر بنکر سعادت مندی سے بہت کچھ سنتے رہے۔ان کے احترام اور حکومتی حالات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درخواستیں اوریقین دہانیاں ہی کراتے رہے۔ لیکن بات نہ بنی۔یہ درست ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا مکروہ کاروبار جو ہمارے گھنائونے سیاسی کلچر کی ایک روایت بن چکا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانے کاآغاز عمران خان نے ہی کیا ہے اور یہ اس سے بڑی حقیقت ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کھلے دل اور پوری سنجیدگی سے سیاسی اورجمہوریت کے نام پر اس کاروباری تماشے کو روکنے کےلئے پیش رفت کی اورآئین میں22ویں ترمیم لانے کافیصلہ کیا۔لیکن مولانا صاحب کا یہ ارشاد بھی تو غلط نہیں ہے کہ آخرترمیم لانے کےلئے کیا یہ وقت معنی خیز نہیں۔یہ فیصلہ پہلے بھی کیاجاسکتا تھا۔پھر21ویں ترمیم پرجے یو آئی کے خدشات اورتحفظات دور نہیں کئے گئے محض وعدوں اور یقین دہانیوں سے کام چلایا جاتا رہا ان کا کہنا ہے کہ ۔ ابھی ہمارے زخم تازہ ہیں۔21ویں ترمیم کازخم مندمل نہیں ہوا کہ حکومت ہمیں ایک نیازخم دینے کے لئے ہم سے ہی نشتر مانگ رہی ہے۔اب مولانا صاحب کے مخالفین بیشک یہ کہتے رہیں کہ سینیٹ میں ایک یادونشستوں پرحکومت کی جانب سے حمایت نہ کئے جانے کے باعث مولانا ترمیم میں حمایت سے انکار کررہے ہیں لیکن انہوں نےجوجواز اختیار کیا ہے وہ بظاہر تودل کولگتا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ پاکستان پیپلزپارٹی کابھی ہے ۔ایوان بالا میں اس وقت سب سے زیادہ نشستیں پاکستان پیپلزپارٹی کی ہیں جس کے اراکین کی تعداد 40ہے جن میں21اراکین 11مارچ کوریٹائر ہورہے ہیں پیپلزپارٹی بھی 22ویں آئینی ترمیم کی مخالفت میں خم ٹھونک کر کھڑی ہوگئی ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی یہ خواہش بھی ہے اورکوشش بھی کہ اس مرتبہ بھی سینیٹ کے چیئرمین کامنصب ان کی جماعت کے پاس ہی رہے۔ موجودہ چیئرمین نیئرحسین بخاری جو پرانے جیالے ہیں 11مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں۔چیئرمین سینیٹ کامنصب سنبھالنے کےلئےپی پی پی کے پاس چوہدری اعتزاز احسن ٗمیاں رضاربانی اورفاروق ایچ نائیک سمیت کئی موزوں نام موجود ہیں لیکن آصف علی زرداری کوقلق ہے کہ میاں صاحب ان کی اس خواہش کی تکمیل میں ان کے حامی نہیں ہیں۔شنید ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب اسمبلی میں بھی سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی بعض توقعات پر پوری نہیں اتررہی۔اس لئے اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ صاحب نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ۔’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کےلئے آئینی ترمیم لائیں یہ قانونی نہیں بلکہ اخلاقی اصولی معاملہ ہے‘‘۔مولانا فضل الرحمان کی طرح آصف علی زرداری صاحب کوبھی یقین ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپاکستان تحریک انصاف کے درمیان ایک خاموش مفاہمت ہوچکی ہےاس لئےوہ 22ویں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔عوامی نیشنل پارٹی بھی ان کی ہم خیال ہے۔اس کے قائدین اعتراف کرتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں پیسے کااستعمال بے دریغ ہوتا ہے لیکن وہ مولانا فضل الرحمان کے ہم آواز ہیں اورکہتے ہیں کہ ایک ایسے موقع پرترمیم لانے کا کوئی فائدہ نہیں جب الیکشن کی تاریخ کااعلان ہوچکا ہے یہ وقت ترمیم لانے کا ہر گز نہیں ۔ دوسری طرف سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے پیپلزپارٹی ایم کیوایم کے مابین بھی معاملات طے پاجانے کی صورت میں دونوں جماعتوں کے سندھ سے دو، دو امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔تو کیا اب پاکستان مسلم لیگ ن اورپاکستان تحریک انصاف ہی ساتھ ساتھ چلیں گی؟اطلاعات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے یہ عندیہ دیاجاچکا ہے کہ ووٹوں کی خرید وفروخت روکنے کیلئےان کے ارکان دوبارہ قومی اسمبلی میں آنے کیلئے تیار ہیں اور تمام حکومتی اقدامات کی حمایت کرنے پربھی۔ اگر تحریک انصاف کے اس مطالبے کی حمایت کی جاتی ہے کہ خفیہ ووٹنگ کی بجائے شو آف ہینڈ کاطریقہ کار اختیار کیاجاتا ہے تو پھر تحریک انصاف باقی حل طلب مطالبات پربھی بات چیت کرنے کوتیار ہے۔ لیکن حکومت کے بعض بہی خواہ وزیراعظم کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے یہ تمام پیشکش اس وجہ سے ہے کہ تحریک انصاف کو اپنے صوبائی اراکین کی جانب سے ووٹ فروخت کئے جانے کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں اورسینیٹ الیکشن کے بعد عمران خان پھر دھرنا خان ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لئے وہ بار بار مشتری ہوشیار باش ٗ مشتری ہوشیار باش کی سرگوشیاں کر رہے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ خود تحریک انصاف کو بھی یہ خدشہ ہے کہ ایسا نہ ہو جائے کہ اس کے ارکان ایوان میں واپس چلے جائیں۔ اور حکومت کوئی جواز بنا کر عین موقع پر 22ویں ترمیم ایوان میں لانے کا فیصلہ ہی موخرکردے ۔ اسی خدشے کے پیش نظر وہ تمام ’’مطلوبہ حفاظتی اور احتیاطی اقدام ‘‘ کرنے میں مصروف ہے۔ جبکہ سینیٹ کے ٹکٹ کی ادائیگی کروڑوں روپے کی شکل میں ’’جماعتی فنڈ‘‘ کے نام پر دینے والے اور ووٹوں کی خرید و فروخت کیلئے خطیر رقوم کی ادائیگی ’’ڈائون پیمنٹ‘‘ کے طور پر کرنے والے بھی ہراساں ہیں کہ اگر کوئی ناموافق صورتحال پیدا ہو گئی تو وہ رقم کی واپسی کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتے۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میںتذبذب بداعتمادی اور غیر یقینی کی اس فضاء میں بعض سیاسی حلقوں کو یہ خوف بھی ہے کہ حالات سنبھالنے کی کوشش میں سارے معاملات ہی نہ بگڑ جائیں اور یہ خوف اتنا بے جا بھی نہیں۔کیا زمانہ آ گیا ہے ہم قانون سازوں کی بدعنوانیوں کو روکنے کیلئے انہی سے قوانین میں ترامیم کرانے پر مجبور ہیں اور کیا حالات ہیں کہ ہمیں ورلڈ کپ میں زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے جیتنے کیلئے بھی دعائیں کرنا پڑیں۔