• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت گوادر،نوابشاہ ایل این جی پائپ لائن کوسی پیک کا حصہ بنانے میں ناکام

اسلام آباد(خالد مصطفیٰ)حکومت700 کلومیٹر طویل گوادر۔نوابشاہ ایل این جی پائپ لائن کوسی پیک کا حصہ بنانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی ذخائر شاہد خاقان عباسی کا کہنا  ہے کہنیشنل اکنامک کونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی(ایکنک)نے اس پروجیکٹ کی منظوری میں6 ماہ کا وقت لگایا، جس کے باعث حکومت اسے سی پیک منصوبے میں شامل کرنےسے قاصر رہی۔چینی کمپنی ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر پر4سے 5 کروڑ ڈالر رعایت دے رہی ہے تاہم پاکستان اس سے زیادہ رعایت چاہتا ہے۔تفصیلات کے مطابق،حکومت گوادر ۔نوابشاہ ایل این جی پائپ لائن پروجیکٹ کو  سی پیک کا حصہ بنانے میں ناکام ہو گئی ہے۔چین نے اس پروجیکٹ کو سی پیک پروجیکٹس کی فہرست میں شامل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام نےاسےپروجیکٹ کا حصہ بنانے میں خاصی تاخیر سے کام لیا ہے۔باوثوق ذرائع نے  دی نیوز کو بتایا کہ نیشنل اکنامک کونسل کی ایگز یکٹو کمیٹی (ایکنک) نے 30 ستمبر، 2016 کو 700 کلومیٹر طویل گوادر۔نوابشاہ ایل این جی پائپ لائن کی منظوری85:15 فیصد کے تناسب سے کردی تھی لیکن اس کے باوجودحکومت اس پروجیکٹ کو سی پیک منصوبے کی ترجیحی فہرست میں شامل کرنے میں ناکام رہی، جس کے باعث یہ پائپ لائن پروجیکٹ آسان قرضوں، ڈیوٹی کی چھوٹ اور خصوصی سیکور یٹی کی سہولیات سے محروم رہے گا، جو کہ سی پیک منصوبے میں شامل تمام پروجیکٹ کو میسر آئیں گی۔اس حوالے سے جب وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی ذخائر شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس بات کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بھرپور کوشش کی کہ اس پروجیکٹ کو سی پیک منصوبے کا حصہ بنائے، مگر وہ ناکام ہوگئی کیوں کہ ایکنک نے اس پروجیکٹ کو منظور کرنے میں6 ماہ کا وقت لیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت نے اس پروجیکٹ کوپلاننگ کمیشن کے حوالے کیا تھا تاکہ سی پیک منصوبوں کے ترجیحی پروجیکٹس میں اسے شامل کیا جاسکے تاہم کمیشن ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ گوادر۔نو ابشاہ ایل این جی پائپ لائن پروجیکٹ کلیدی اہمیت کا حامل ہے، جو نہ صرف600 ایم ایم سی ایف ڈی، ری گیسیفائیڈ ایل این جی کی سسٹم میں شمولیت کے لیے نقل وحمل کا باعث ہوگی بلکہ 750 ایم ایم سی ایف ڈی گیس ایران سے درآمد کرنے کا سبب بھی بنےگی کیوں کہ جیسےہی اقوام متحدہ اور امریکاایران کے جوہری عزائم کے حوالے سے لگائی گئی پابندی اٹھائے گا، ویسے ہی اس پائپ لائن کو 81 کلومیٹر طول دے کر گوادر سے ایرانی سرحد تک لے جایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ حکومت جیسے سی پیکمنصوبےمیں ڈیوٹی چھوٹ اور سیکوریٹی مہیا کررہی ہے، اسی طرح اس پروجیکٹ میں بھی یہی سہولیات فراہم کرے گی۔ان کا کہنا  تھا کہ اگر حکومت اس پروجیکٹ میں ڈیوٹی چھوٹ دیتی ہے تو  اس کی لاگت میں کمی آسکتی ہے۔تاہم، سی پیک منصوبوں کو قرضوں کی جو سہولیات حاصل ہیں وہ گوادر۔نوابشاہ پروجیکٹ کو میسر نہیں ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ پر کام شروع کیا جاچکا ہے اور اب اسے ای پی سی۔ایف (انجینئرنگ پروکیورمنٹکنٹریکٹ۔فنا نسنگ) ماڈل کے کمرشل قرضوں کی بنیاد پر مکمل کیا جائے گا۔قیمت کا تعین کرنے والی کمیٹی نے اس پروجیکٹ کا حتمی تخمینہ 1.353 ارب ڈالر لگایا ہے۔جہاں تک گوادر کے ایل این جی ٹرمینل کا تعلق ہےتو چین کی جس کمپنی نےپائپ لائن کی تعمیر کرنی ہےوہی ایل این جی ٹرمینل بھی تعمیر کرے گی۔اس کمپنی نے پاکستان کو پروجیکٹ میں آنے والی لاگت میں4سے5 کروڑڈالر رعایت دے رہی ہے تاہم ، پا کستان اس سے زیادہ رعایت چاہتا ہے۔ البتہ ایل این جی  ٹرمینل کی قیمت کا تعین کرنے والی کمیٹی نے اب تک حتمی قیمت کا تعین نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر  ایل این جی ٹرمینل کا حتمی تخمینہ 25 کروڑ ڈالر لگادیا جاتا ہےتو  ایل این جی ٹرمینل اور 700 کلومیٹر طویل ایل این جی پائپ لائن جو گوادر سے نوابشاہ تک جائے گی اس کا کل تخمینہ1.6 ارب ڈالر ہوجائے گا۔اب اگر اس پروجیکٹ میں ڈیوٹی چھوٹ دی جاتی ہےجیساکہ وزیر خزانہ نے وعدہ کیا ہےتو اس کی حتمی قیمت کا تعین بھی ہوجائے گا۔ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ700 کلومیٹر طویل ایل این جی پائپ لائن کے علاوہ اصل پائپ سےایل این جی ٹرمینل تک 12 کلومیٹر طویل ایک اور پائپ لائن تعمیر کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ قیمت کا تعین کرنے والی کمیٹی کئی بار اپنے چینی ہم منصبوں سے مل چکی ہے، تاکہ ایسی قیمت پر اتفاق ہوسکے جو دونوں پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہو۔ایل این جی ٹرمینل بوٹ(تعمیر، ملکیت، قابل عمل اور منتقلی)کی بنیاد پر تعمیر کیا جائے گا۔
تازہ ترین