On her Majestys Secret Service، جیمز بانڈ کی فلم تھی جو 1969ء میں ریلیز ہوئی ، اس فلم میں جارج لیزنبی نے جیمز بانڈ کا کردار ادا کیا ، یہ بانڈ کافی ’’ماٹھا “ تھااس لئے مسٹر لیزنبی کی یہ پہلی اور آخری فلم ثابت ہوئی ۔ ہر بانڈ فلم کی طرح اس فلم کی خاص بات بھی اس کی شوٹنگ لوکیشنز تھیں ۔ اس فلم کا بڑا حصہ شلتھورن (Schilthorn) ، سوئٹزر لینڈ کی وادیوں میں فلمایا گیا جو نو ہزار سات سو چوالیس فٹ کی بلندی پر واقع ہے ، اس پہاڑ کی چوٹی پر Piz Gloria Restaurantہے جسے ولن کے ہیڈ کوارٹرکے طور پر استعمال کیا گیاتھا۔ یہ جگہ میری اس فہرست میں شامل ہے جسے میں نے 10Places to Visit before you Die کا نام دے رکھا ہے ۔ یہا ں تک پہنچنے کا سفر خاصا دلچسپ تھا۔ ہم ایک ٹرین پکڑ کرانٹر لاکن آئے ، یہ دو جھیلوں کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کے دو اسٹیشن ہیں۔ ایسٹ اور ویسٹ (مشرق اور مغرب) ، قصبہ سے مراد یہ نہیں کہ یہ گنڈا سنگھ والا ٹائپ کی کوئی جگہ ہے بلکہ یہ سوئٹزر لینڈ کے بہترین تفریحی مقامات میں سے ایک ہے ۔ یہاں سے اگلی ٹرین ہمیں لوتھر برونن کے علاقے میورن لے گئی ۔ یہ نسبتاً چھوٹی ٹرین تھی اور میورن چونکہ ساڑھے پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اس لئے چڑھائی چڑھنے کے لئے اس ٹرین کو خاصی محنت کرنی پڑی ۔ میورن اسٹیشن پر اتر کر ہم نے دائیں بائیں دیکھا ۔ خلاف توقع کوئی ایسا سائن بورڈ نظر نہیں آیا جس پر شلتھورن جانے کا اشارہ ہو۔ انٹر لاکن اسٹیشن پر واقع ٹورسٹ انفارمیشن آفس کی ریسپشنسٹ نے بتایا تھا کہ میورن پہنچ کر ہمیں کیبل کار لینی پڑے گی۔ محترمہ چونکہ کافی خوش شکل تھیں ،اس لئے میں نے ان کی باتیں غور سے نہیں سنیں فقط آنکھوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا رہا اور اب پچھتا رہا تھا کہ ایسا کیوں کیا!یہاں جس کسی سے بھی پوچھا کہ کیبل کار کا اسٹیشن کہاں ہے اس نے یہی کہا کہ بس چند قدم آگے اور یہ چند قدم پہاڑ کی آدھے گھنٹے کی چڑھائی ثابت ہوئے ۔
جونہی آپ کیبل کار میں بیٹھتے ہیں ، جیمز بانڈ کا تھیم میوزک بجنا شروع ہو جاتا ہے ، لوہے کی موٹی تار پر ’’ڈولتی‘‘ ہوئی یہ کیبل کار پہاڑوں کے درمیان سےہوتی ہوئی میورن سے برگ (Birg) تک لے جاتی ہے۔ جوں جوں یہ کیبل کار بلندی کی طرف جاتی ہے سامنے لگے ہوئے میٹر کی سوئی آگے کو چلنا شروع کر دیتی ہے اور بالآخر تقریباًنو ہزار فٹ کی بلندی پرجا کر رکتی ہے ۔ کیبل کار سے اتر کر ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی ، ہم بادلوں میں گھر چکے تھے۔ ہمارے سامنے دنیا کی خوبصورت چوٹیاں سر جھکائے کھڑی تھیں ۔کچھ برف سے ڈھکی تھیں اور کچھ ننگے سر تھیں ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے تا حد نگاہ سبزے پرکسی نے چاندی کی بڑی بڑی ڈلیاں سجا رکھی ہوں۔ ان چوٹیوں سے نیچے کی طرف وادی میں چھوٹے چھوٹے مکان نظر آ رہے تھے اور مکانوں کے درمیان خوشنما ترتیب میں رستے بنے ہوئےتھے ۔یہ سارا نظارہ آپ اس ریستوران کی چھت سے کر سکتے ہیں جو برگ میں بنا ہے۔ اس ریستوران کی سب سے متاثر کن بات یہ ہے کہ دنیا جہان کا ٹورسٹ یہاں آتا ہے مگر اسے صرف ایک بندہ چلاتا ہے اور وہ خود اس ریستوران کا مالک۔ ہم سے آرڈر بھی اسی نے لیا ، سینڈ وچ بھی اس نے خود بنایا اور سرو بھی خود کیا ۔ لیکن بل لینے نہیں ،وہ ہم نے خود جا کر ادا کیا ۔برگ سے شلتھورن تک ایک اور کیبل کار ہمیں پز گلوریا ریستوران لے گئی۔ یہ مزید ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ شلتھورن اور پز گلوریا ریستوران تک کا تمام راستہ جیمز بانڈ تھیم کے مطابق ہی تشکیل دیا گیا ہے۔ یہاں صرف وہ ریستوران ہی نہیں جہاں جیمز بانڈ کی فلم کی شوٹنگ ہوئی تھی بلکہ ان کمبختوں نے پورا ایک ’’بانڈ ورلڈ ‘ ‘ یہاں بنا رکھا ہے ۔ ایک قسم کا یہ چھوٹا سا بانڈ میوزیم ہے ۔ یہاں اس فلم میں استعمال ہونے والا ہیلی کاپٹر تک موجود ہے۔پز گلوریا ریستوران ایک ریوالونگ ریستوران ہے اور کھانا کھاتے ہوئے آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ برف پوش چوٹیوں کے دامن میں بیٹھے لنچ کر رہے ہوں مگرریستوران کے اندر گرمی، جس نے ہمیں مایوس کیااور ہم اوپری منزل پر باہر آگئے۔اگر آپ اس جگہ براہ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے آنا چاہیں تو آ پ کو بالکل جیمز بانڈ کی طرح یہاں لایا جا سکتا ہے ۔
اگر آ پ کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور جیب میں چار پیسے بھی ہوں اور آپ پوری فیملی کی بجائے تنہا اپنی دلہن کے ساتھ ہنی مون منانا چاہتے ہوں تو آپ زرمت (Zermatt) جائیں اور (اپنی بیگم کے )ہاتھوں میں ہاتھ ڈا ل کر واک کریں ۔ زرمت آنے کا بہترین موسم سردیاں ہیں اور ذریعہ گلیشئیر ایکسپریس۔ ہم نے چونکہ گرمیوں میں سفر کیا اس لئے گلیشئر ایکسپریس نے مایوس کیا۔ یوں کہیے کہ اس کے نام نے دھوکا دیا ، یہ ایک لگژری ٹرین ہے جس کے چاروں اطراف میں شیشے لگے ہیں ، ان کا دعو یٰ یہ ہے کہ یہ دنیا کی حسین ترین برفیلی چوٹیوں سے گزرتی ہوئی آپ کو زرمت تک لے جاتی ہے ۔ ممکن ہے سردیوں میں ایسا ہی ہو مگر اس موسم میں ایسا کوئی نظارہ نہیں تھا۔ اس سے کہیں زیادہ دلفریب سفر Flam banaکا ہے جو ناروے کی برفیلی پہاڑیوں کے درمیان لے جاتی ہے ۔ بات زرمت کی ہو رہی تھی ، یہ ساڑھے پانچ ہزار کی آبادی کا ایک ’’قصبہ “ ہے جہاں ساڑھے تین سو کے قریب ہوٹل ہیں۔یہاں کا تقریباہر بندہ ہی کسی نہ کسی طرح ہوٹل یا ریستوران کے کاروبار سے منسلک ہے۔ اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے ۔ یہاں بجلی سے چلنے والی چھوٹی چھوٹی کاریں چلائی جاتی ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کا ذریعہ ٹرین ہے جس کا اسٹیشن شہر کے بالکل درمیان میں واقع ہے اور اگر آپ پہاڑوں کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ پھر کیبل کار ۔شہر کے بیچوں بیچ ایک دریا بہتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا دریا ہے مگر کسی سمندر کی طرح بپھرا رہتا ہے۔ یہ پورے شہر کے درمیان سے یوں گرجتا ہوا گزرتا ہے جیسے شہر کو کاٹ ڈالنا چاہتا ہو۔ اس کا شور اتنا ہے کہ آپ کو کافی دور سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آگے دریا آنے والا ہے ۔چاروں طرف اونچی نیچی پہاڑیوں پر رنگ برنگے مکانات ، ہوٹل اور اپارٹمنٹس بنے ہیں۔ ان تمام عمارتوں کا رنگ اور ڈیزائن ایک جیسا ہے۔ زیادہ تر گھروں نے گہرا سرخ رنگ کا لباس اوڑھ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی نئی نویلی دلہن شرمائی لجائی کھڑی ہو۔ اسٹیشن سے باہر آتے ہی اگر آپ دائیں جانب مڑ جائیں تو زرمت کا بازار آجاتا ہے۔یہاں مختلف کھانوں کے ریستوران اور کافی شاپس ہیں ۔ سوئٹزر لینڈ کی بیش قیمت گھڑیوں کی دکانیں ہیں۔ آپ اس پورے بازار میں واک کریں یا زرمت شہر میں کہیں بھی چلیں جائیں کسی جگہ کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی زمین پر پڑا نہیں ملے گا ۔ اس شہر کے باسی ماحولیاتی آلودگی کے تو شاید ہجے بھی نہ جانتے ہوں ۔
جنت کے یہ ٹکڑ ے جن ملکوں نے اپنے ہاں بنائے ہیں انہوں نے اس کے لئے نہ صرف انتھک محنت کی ہے بلکہ بے پناہ پیسہ بھی خرچ کیا ہے اور یہ سارا پیسہ حکومتیں عوام سے ٹیکس کی شکل میں وصول کرتی ہیں۔ سوئٹزلینڈ وہ ملک ہے جو بیس برسوں میں صرف ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ پر ہی اٹھارہ ہزار پانچ سو ملین فرانک خرچ کرے گا ۔ اب خود ہی ضرب تقسیم کرکے اندازہ لگا لیں۔
ہم حکومت کو ایک دھیلا نہیں دیتے۔ حکومتیں آمدن بڑھانے کی ہمت نہیں رکھتیں کیونکہ انہوں نے ووٹ لینے ہوتے ہیں۔ عوام سہولتیں مانگتے ہیں امریکہ والی مگر قانون پر عمل کرنے کو تیار نہیں تو پھرمسئلہ کیسے حل ہو، اس کا ذکر پھر کبھی!
نوٹ: گزشتہ کالم میں ’’ٹاپ آف یورپ “ کی بلندی سات سو فٹ لکھی گئی جو کہ گیارہ ہزار سات سو فٹ ہے۔