ایک آدمی ایک غلطی ایک دفعہ کرتا ہے لیکن اگر وہی غلطی وہ دوبارہ بھی کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک نااہل آدمی ہے وہ اس ذمہ داری کا متحمل نہیں ہوسکتا جس کی ادائیگی کے دوران وہ باربار غلطیاں کرتا ہے پاکستان 1947ء میں وجود میں آیا وہ زمانہ تھا اور آج کا دور ہے پاکستان کے حکمراں انتظامیہ اور ارباب حل و عقد ایک جیسی روش اختیارکئے ہوئے ہیں جس کی بدولت ہر دفعہ ملک کی بیرونی اور اندرونی سلامتی کیلئے پیچیدہ خطرات سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔وہ زمانہ یاد کیجئے لیاقت علی خان وزیراعظم تھے بڑے سچے دبنگ شخصیت کے مالک تھے امریکا کی اس وقت کی حکومت نے ان پر دبائو ڈالا کہ وہ اس وقت کی ایرانی حکومت پر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے امریکا کیلئے ایرانی تیل کی تنصیبات کی دیکھ بھال اور ترقی کی ذمہ داری امریکا کو دے دے۔ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں کو دیکھتے ہوئے اور غیرجانبداری کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے لیاقت علی خان نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ نہیں وہ کسی بھی دوسرے ملک کے معاملات میں دخل نہیں دیں گے چنانچہ امریکی CIAنے انہیں قتل کرایا اور یہ خبر خود امریکی ذرائع نے ظاہر کی اور کچھ دن پہلے پاکستان کے اخبارات میں بھی شائع ہوئی ہے۔ پہلے وزیراعظم نے جان دے دی لیکن دبائو میں نہیں رہے۔
لیکن یہ پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے کہ جس نے سر اٹھانے کی کوشش کی یا سر اٹھاکر چلنے کی کوشش کی اس کا نہ سر رہا اور نہ اقتدار۔ میں اس سلسلے میں کسی تفصیل میں نہیں جائونگا میرے قاری بہت ذہین ہیں وہ صورت حال کو سمجھنے میں دیر نہیں کریں گے۔ جس وقت چین بھارت سرحدوں پر فوجی جھڑپیں ہورہی تھیں ایوب خان اس وقت صدر تھے انہوں نے امریکی رویے پر نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ اسے پاکستان کے اسٹرٹیجک مفاد کے خلاف قرار دیا۔اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور پاکستان کا جھکائو چین کی طرف بڑھنے لگا 1965ء کی پاکستان بھارت جنگ کے دوران امریکا اور روس دونوں ہی بھارت کی حمایت پر آمادہ نظر آتے تھے روس کچھ زیادہ اور امریکا ڈپلومیٹک پردوں کے پیچھے سے ڈوریاں ہلارہا تھا۔ ایوب خان جس کے نتیجے میں، اقتدار سے محروم ہوگئے گو اس عمل کو وقت لگا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو ان پر بھی امریکی دبائو ڈالا گیا کہ وہ چین سے قریب نہ ہوں۔ لیکن وہ ایک ذہین اور وژنری سیاستداں تھے انہوں نے پاکستان کے مفاد میں پیش رفت جاری رکھی وہ اندرون خانہ اس حمایت سے واقف تھے جو امریکا بھارت کو جوہری طاقت بنانے کیلئے کررہا تھا بھارت 1962ء میں اس پوزیشن میں تھا کہ وہ جوہری بم بناسکتا تھا اس لئے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ عہد کرلیا کہ پاکستان کو اپنی بقا کی خاطر ایٹم بم ہر قیمت پر بنانا ہوگا۔ جب کوئی سچا اور مخلص لیڈر عہد کرلیتا ہے کہ اسے ملک کی بقا کیلئے اس کی سلامتی کیلئے بڑے سے بڑا خطرہ مول لینا ہوگا تو وہ جان کی بازی لگادیتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے وہی راستہ اختیار کیا امریکا نے انہیں وارننگ دی لیکن وہ اپنے ارادے کے پختہ لیڈر تھے وہ دھن میں لگے رہے امریکا کے اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا ہم تمہیں نشان عبرت بنادیں گے اور امریکا نے ان کو سر اونچا اٹھا کر چلنے کی سزا جان لیکر دی اس کیلئے امریکا کو بڑی سازش کرنا پڑی لیکن انہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ بعد کے حالات نے بتایا کہ آج پاکستان جوہری طاقت ہے اس کے پیچھے ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا کردار ہے۔
بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ 1974ء میں کیا تھا اور اس کے بعد دو اور 13؍مئی 1998ء کو بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے اس سے جنوب مشرقی ایشیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اس زمانے میں میاں نوازشریف وزیراعظم تھے امریکا نے پاکستان پر شدید دبائو ڈالا کہ بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ صدر کلنٹن نے اس غرض سے میاں نوازشریف کو کم از کم پانچ چھ دفعہ فون کیا کہ پاکستان ایٹمی دھماکہ نہ کرے لیکن میاں صاحب نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا اور ایٹمی دھماکے کرادیئے۔
اگر میاں صاحب امریکی دبائو میں آجاتے تو پاکستان آج بھارت کی ذیلی ریاست بن چکا ہوتا۔ اُن کے ہاتھ سے اقتدار چلاگیا لیکن پاکستان نے وہ مقام حاصل کرلیا جس سے محروم کرنے کی عالمی سازش ہورہی تھی۔ لیکن آج تک امریکا نچلا ہوکر نہیں بیٹھا وہ پاکستان کو کمزور کرنے اور غیرمستحکم کرنے کی حکمت عملی کا حصہ بنا ہوا ہے اور اس سازش کا دوسرا حصہ جاری ہے۔سازش ہورہی ہے کہ پاکستان کی عسکری قوت کو مختلف محاذوں پر پھیلادیا جائے، افغانستان میں روسی مداخلت اور پھر امریکی اور اس کے حلیفوں کی افواج کا افغان طالبان کے ساتھ جنگی محاذ آرائی میں پھنسنا اور پھر اس جنگ کو پاکستان کے علاقے تک پہچانا حالت جنگ کا بڑا منظر ہے۔پاکستان کے چاروں طرف گھیرا تنگ ہورہا ہے افغانستان بھی آنکھیں دکھارہا ہے وہاں بھارت کے اثرات بڑھ رہے ہیں خلیجی ملکوں میں بھارت پیر جمارہا ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔آنے والے وقت میں پاکستان کو وژنری لیڈرشپ کی ضرورت ہے ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جس کے پیچھے سب متحد ہوجائیں سب ایک ہی بات کررہے ہوں سب کی منزل ایک ہو۔
میاں نوازشریف کو وزیراعظم ہوئے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور ان کی حکومت کو گرانے کی باتیں ہورہی تھیں 26؍اپریل 1997ء کو میں نے جنگ میں کالم تھا اور میاں صاحب کو مشورہ دیا کہ سیاسی لیڈر تو بہت ہیں رہنما بن کر دکھائیے اس لئے کہ پاکستان کو ایک رہنما کی ضرورت ہے جو پاکستان کو ترقی دے سکے اس کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنادے اور یہ اس وقت ممکن ہے جب عدل کا نظام قائم ہو پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز نظام عدل میں ہے۔ نفرت کی سیاست، لوٹ مار کی سیاست اور اشتعال انگیزی میں نہیں ہے۔ ہمارے دامن میں آگ لگی ہے ہم اسے بجھا نہیں پارہے ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہمارے برادر ملک بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں ہمارے دوستوں نے ہمیں افغانستان میں پھنسایا۔ ایران سے اختلافات اور کشیدگی بڑھانے کیلئے جال بچھایا دوست ہمیں کہتے ہیں ایٹمی سول ٹیکنالوجی سے لیکر دفاعی سہولت کاری سے بھارت کو نوازا جارہا ہے ہمیں چین سے دوستی اور قربت کی سزا دی جارہی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
تیرے محیط میں کہیں جوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف