• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئین کی متعدد شقوں کو عملی طور پر معطل ہیںجس کے نتیجے میں پاکستان کے تینوں چھوٹے صوبوں کو ایک بڑے صوبے / مرکز کا غلام بناکر رکھ دیا گیا ہے‘ ایسی شکایت سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بھی ایک دن پہلے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی ہے‘ انہوں نے خاص طور پر اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ ہر کمیٹی میں فقط ایک ہی صوبے کے وزیر اعلیٰ یعنی جناب شہباز شریف کو مدعو کیا جاتا ہے جبکہ باقی تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے خاص طور پر کابینہ کمیٹی اور توانائی کے بارے میں تشکیل دی گئی کمیٹی کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مرکز کو خبردار کیا کہ وہ دوسرے صوبوں کے وسائل اور قیمت پر صرف ایک صوبے کو ترقی دینے سے باز رہے‘ ایسی ہی شکایت بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کی اور اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ایک بڑے صوبے کے علاوہ باقی تین چھوٹے صوبوں کونظر انداز کیا جاتا ہے‘ ایسی ہی شکایتیں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بار بار کرتے رہے ہیں‘ مگر اب تک ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے کہ مرکز ان شکایتوں کے ازالے کے سلسلے میں سوچ بھی رہا ہے‘ بہرحال اس کالم میں ہم 18 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کی شق 172 میں کی گئی ترمیم پر عمل نہ کرنے کا ذکر کریں گے۔ واضح رہے کہ ترمیم شدہ 172 شق کے تحت قدرتی وسائل پر فقط وفاقی حکومت کے اختیار کی بجائے ان قدرتی وسائل کو اب وفاقی حکومت اور متعلقہ صوبوں کی ’’مشترکہ ملکیت‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ 18 ویں ترمیم کے تحت آئین کی شق 172 میں ذیلی شق 3) )شامل کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ایک صوبے میں یا اس سے منسلک سمندری علاقائی حدود میں ملنے والے منرل‘ آئل اور قدرتی گیس پر متعلقہ صوبے اور وفاقی حکومت کا مشترکہ اور مساوی حق ہوگا۔‘‘ اس طرح ملنے والی منرل‘ آئل اور قدرتی گیس کے بارے میں ’’مشترکہ ملکیت‘‘ کا تصور پیش کیا گیا ہے مگر افسوس کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک اس ’’نظریے‘‘ کو قبول نہیں کیا‘ اس کے برعکس وفاقی حکومت نے منرل‘ آئل اور قدرتی گیس کی متعلقہ صوبوں کے لئے 50 فیصد مالکی کو مسترد کردیا ہے‘ اس حد تک کہ سندھ یا کسی دوسرے صوبے میں تیل اور گیس پروجیکٹس میں سے کمائے جانے والے نفع میں سے ایک روپیہ بھی متعلقہ صوبے کے اکائونٹ میں جمع نہیں کرایا جاتا‘ اسی دوران 2 ستمبر کو او جی ڈی سی ایل کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ جلد ہی او جی ڈی سی ایل اس شعبے میں 6 نئے پروجیکٹ شروع کررہی ہے جن میں سے سالانہ 2.5 ارب ڈالر کمائے جائیں گے جو قومی خزانے میں جمع کیے جائیں گے‘ ان پروجیکٹس میں سے 3 پروجیکٹ سندھ میں ہیں‘ 2 پروجیکٹ بلوچستان میں ہیں اور ایک کے پی میں ہے‘ در حقیقت منافع کی اس رقم میں 50 فیصد حصہ متعلقہ صوبے کا ہے‘ سندھ حکومت نےاس اطلاع پر شدید صدمہ محسوس کیا ہے کہ وفاقی حکومت جس کے پاس او جی ڈی سی ایل کے 75 فیصد شیئرز ہیں وہ اس کمپنی کو نجی ہاتھوں میں دے رہی ہے‘ حکومت سندھ کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت‘ او جی ڈی سی ایل کے 50 فیصد شیئرز نجی ہاتھوں میں دینے کے سلسلے میں جب تک سندھ حکومت کی رضا مندی حاصل نہیں کرتی وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ حکومت سندھ کا موقف ہے کہ یہ سوال کہ مشترکہ مالکی کے نظریے پر کیسے عمل کیا جائے اور اس شعبے میں مستقبل کے لئے کیسا ڈھانچہ بنایا جائے‘ بغیر وقت ضائع کیے قومی اقتصادی کونسل کو غور کرکے فیصلے کرنا چاہئے‘ حکومت سندھ کے ذرائع نے اس بات کو ملک کی بدنصیبی قرار دیا ہے کہ این ای سی (قومی اقتصادی کونسل) جیسا ایک انتہائی اہم ادارہ جسے آئین کی شق 156 (2) کے تحت یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ’’وہ مالیاتی‘ تجارتی‘ سماجی اور معاشی پالیسیوں کے بارے میں منصوبے بنائے‘‘ کو عملی طور پر معطل کردیا گیا ہے‘ این ای سی کی بجائے ملک بھر میں منصوبہ بندی وفاقی منصوبہ بندی کمیشن کے ذریعے کرائی جارہی ہے جبکہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے‘ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ فیصلہ حکمران پارٹی کے منشور سے ضرور مطابقت رکھتا ہے کیونکہ یہ پارٹی نجی شعبے کو ہی ترقی اور پیداوار کے لئے حقیقی ذریعہ تصور کرتی ہے ‘ بہرحال حکومت سندھ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ فقط آئین کا تقاضا ہے مگر خود ملک کے مفادات کا بھی تقاضا ہے کہ آئین کی ترمیم شدہ شق 172 پر بتدریج عملدرآمد کیا جائے‘ اس سلسلے میں ان ذرائع نے تجویز کیا ہے کہ پہلے قدم کے طور پر تیل اور قدرتی گیس کے سارے پروجیکٹس کی آمدنی اور اخراجات کے انفرادی اکائونٹس کھولے جائیں۔ حکومت سندھ کے ذرائع کا موقف ہے کہ قانونی نقطہ نگاہ سے آئین کے مطابق ہر صوبے میں ’’آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے جس کے انتظامی بورڈ میں متعلقہ صوبے اور مرکز کی مساوی نمائندگی ہونی چاہئے‘ اس اتھارٹی کی ذمہ داریوں کو اس طرح وضع کیا جائے کہ ان املاک کی ’’مشترکہ ملکیت‘‘ کے تصور کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جاسکے۔ اس مرحلے پر مجھے یاد آتا ہے کہ گزشتہ حکومت میں جب سندھ میں انرجی کی وزیر شازیہ مری تھیں تو اسلام آباد میں ایک بار انرجی پر ہونے والے مشترکہ اجلاس میں محترمہ نے مرکز کو آگاہ کیا کہ سندھ حکومت سندھ صوبے کے لئے ’’سندھ او جی ڈی سی ایل‘ ‘ قائم کرنا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق مرکز کے نمائندوں نے اس نام پر اعتراض کیا اور اس تجویز پر عملدرآمد کے سلسلے میں رکاوٹیں پیدا کیں مگر بعد میں اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت نے ’’سندھ او جی ڈی سی ایل‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا مگر پتہ نہیں کیوں اب تک یہ ادارہ نہیں بنایا گیا اور یہ فیصلہ کولڈ اسٹوریج میں پڑا ہوا ہے مگر چونکہ ایک نوجوان سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے ہیں تو ان سے توقع ہے کہ وہ فوری طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق انرجی کے بارے میں موجودہ سندھ حکومت نے کئی ایشوز سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے‘ اسی دوران 27 ستمبر کو یو این ڈی پی کے تحت آئین کی ترمیم شدہ شق 172 کے بارے میں اسلام آباد میں اجلاس منعقد کیا گیا‘ اس اجلاس میں سابق وزیر اعلیٰ کے کوآرڈنیٹر و سینیٹر تاج حیدر نے سندھ کی نمائندگی کی۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے سندھ کا موقف پیش کیا کہ آئین کی ترمیم شدہ شق 172 پر بتدریج عملدرآمد کرنے کا پلان پیش کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور نمائندوں نے نہ فقط اس پلان کی ٹھوس حمایت کی مگر کئی اہم انکشافات بھی کیے۔ ان میں خاص طور پر او جی ڈی سی ایل کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر اور پیٹرولیم کی وزارت کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر گلزار احمد بھی شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تیل اور گیس کی پیداوار زیادہ تر خانگی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہوںنے انکشاف کیا کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی‘ رائلٹی اور تیل و گیس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سو فیصد ان کمپنیوں کی جیبوں میں جاتی ہے‘ اس انکشاف سے خاص طور پر سندھ کے لئے کئی متعلقہ حقائق سامنے آئے۔ سندھ حکومت کے ذرائع کے مطابق سندھ جو تیل و گیس اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ پیدا کررہا ہے اور یہ کہ سندھ میں مزید کافی بھاری مقدار میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیں‘ اس نقطہ نگاہ سے سندھ کے ذرائع سوال کررہے ہیں کہ سندھ اپنے وسائل کیوں زیرو نرخوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو فروخت کرے؟


.
تازہ ترین