11اکتوبر 2015 ءکو حلقہ 122این اے سے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں تین بڑی جماعتو ں کے امیدوار مندرجہ ذیل ہیں:
O ..... سردارایاز صادق (مسلم لیگ نون)
O .....عبدالعلیم خان (تحریک انصاف)
O ..... بیرسٹر عامر حسن (پاکستان پیپلزپارٹی)
سردار ایاز صادق دو پہلوئوں سےنمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اولاً ان کی جماعت وفاق اور صوبہ پنجاب میں پورے طمطراق سے حکمران ہے۔ جو لوگ نون لیگ کی حکمرانی کو ’’ربڑ اسٹیمپ حکومت‘‘ قرار دینے میں خبط کی حد تک مبتلا ہوچکے ہیں ان کی بات، نہایت غیر حقیقی بات، ایک لمحے کو مفروضہ کےطور پر تسلیم بھی کرلی جائے تب بھی ن لیگ کی حکومت قومی سطح کے چندمحاذوں خصوصاً ’’دہشت گردی‘‘ اور’’ ملکی خارجہ پالیسی‘‘ کے علاوہ ملک اورصوبے میں کسی طرح کی نوعیت سے بھی کمزور نہیں کہی جاسکتی۔ وفاق اور صوبے کی پوری ریاستی مشینری اس کے سامنے دَم مارنے کی مجال نہیں رکھتی۔نادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک اور سوئی نادرن کمپنی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر عارف حمیدکی مثالیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنےکیلئے کافی ہیں جنہیں نون لیگ کی حکومت کو ’’ربڑ اسٹیمپ حکومت‘‘ قرار دینے کا مالیخولیا ہوچکا ہے۔ حکومتی امیدوار ہونے کے باعث اور ضمنی انتخابات کےنتائج کی مجموعی روایت کے مطابق سردار ایاز صادق کی عمومی پوزیشن دونوں امیدواروں پر بہرطور ایک فوقیت رکھتی ہے۔ حکومتی امیدوار کی پوزیشن انتخابات کے تمام قوانین و ضوابط کی پابندی کے باوجود متعلقہ ریاستی اہلکاروں کی نفسیات پر بھی اثرانداز رہتی ہے۔ یہ پہلو بھی مدنظر رہنا چاہئے!
تحریک انصاف کےامیدوار عبدالعلیم خان سردار ایاز صادق کے اصل حریف کہے جاسکتے ہیں۔ لاہور کے موجودہ سیاسی ماحول اور عمران خان کی جانب سے دائر کردہ انتخابی عذرداری کی وجہ سے سردارصاحب کو جس سیاسی خجالت کا سامنا کرناپڑا ووٹروں کے ذہنوں میں موجوداس تنازع نے بھی دونوں امیدواروں کے موجودہ انتخابی مقابلے کو سیاسی زندگی و موت کا مقابلہ قرار دیدیا ہے۔ حلقہ 122این اے کی اس انتخابی رزم آرائی میں دو حوالوں سے عبدالعلیم خان نہایت تشویشناک مشکل مراحل سے دوچار ہیں۔پہلامرحلہ یہ کہ ان کے لیڈر عمران خان اس حلقے سے امیدوار رہے ہیں۔خان صاحب کی شکست کا مطلب بطور جماعت تحریک انصاف سے زیادہ بطور فرد عمران خان کی شاید ساری سیاست کے لئے داغ ندامت ہوگا۔ایسا داغ ندامت جس کی بحالی ہوتے ہوتے اکثر لیڈر ادھ موا ہوجاتا ہے۔ لیڈری اس نے کیا کرنی ہے۔دوسرا مرحلہ تحریک انصاف کی قیادت کے اندرونی اختلافات ہیں جن کا ردعمل متعلقہ حضرات کے مابین نفرت کی حدود کو چھو رہا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں عمران خان صاحب کو کچھ عرصہ قبل ان اختلافات کی ہمالیاتی مقدار نے سرعام ان کا اعتراف کرنے اور اپنی جماعت کےان رہنمائوں کو خبردار کرنے پر مجبور کردیا۔ درست ہے عبدالعلیم خان نے حلقہ 122 کے در و دیوار اپنے انتخابی پوسٹروں سے ڈھانپ دیئے ہیں۔ علیم خان کے انتخابی ہورڈنگز اور انتخابی کیمپوں کی بھرمار لوگوں کو روزانہ حیرت میں مبتلا کر رہی ہے مگر ایک اور بات بھی د رست ہے وہ یہ کہ عبدالعلیم خان کی انتخابی مہم میں تحریک انصاف کے جواں سال ایم پی اے اسلم اقبال کے علاوہ کوئی دوسرا یا دوسرے نمایاں نام نہیں لئے جاسکتے۔ میاں اسلم اقبال ، عبدالعلیم خان کا غالباً وہ واحد پلس پوائنٹ ہے جس سے سردارصاحب محروم ہیں، یہ کہ اسلم اقبال حلقہ 122این اے کے ووٹروں میں بہت ہی بہترین شہرت اور کردار کے حامل ہیں۔ اس حلقے میں ان کے حامی اور مخالف عوام انہیں صحیح معنوں میں ایسا عوامی نمائندہ سمجھتے اور برت چکے ہیں جس کے دروازے ہمہ وقت سائلین یا کسی مشکل میں گھرے فردکے لئے کھلے رہتے ہیں۔واپس اسی نکتے کی طرف آتے ہیں جس کاتعلق تحریک انصاف پنجاب کی حد درجہ تلخیوں میں ڈھلی اندرونی چپقلش سے ہے۔ عمران خان یا عبدالعلیم خان، دونوں لاکھ تردیدیں کریں، باہمی شکر رنجیاں تحریک انصاف کے امیدوار کو منفی بنیادوں پر متاثر کر رہی ہیں۔ اندرون خانہ 11اکتوبر کے دن تک اسی صورتحال کے جاری رہنے کے امکانات بدیہہً دکھائی دیتے ہیں۔ اب آتے ہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کی طرف، بیرسٹر جواں سال، متحرک اور پارٹی کے تناظر میں جذبہ و جوش سے فراواں اور رواں ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی گزشتہ دنوں لاہور آمد، بعد ازاں اسلام آباد میں خطاب، دونوں مواقع پر پارٹی کے اس امیدوار کو بولنے کا موقع ملا۔ دونوں مقامات پر بیرسٹر عامر حسن کی تقریر دلپذیر نے حاضرین کے دل گرما دیئے۔ پیپلزپارٹی کے بیدار ترین جیالے کلچر کی طاقتور یادوں نے اجلاس میں یک نئی سیاسی زندگی کی لہریں پیدا کردیں۔ ماحول اتنا پرعزم اور اتنا باحوصلہ نظر آنے لگا جیسے 1970 کی پاکستان پیپلزپارٹی یکدم زندہ ہوگئی ہو، یکدم وہ عوام کو اور عوام اس کو صدا دے رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تو خود چیئرمین بلاول بھٹو کی کسانوں، مزدوروں ، غریبوں اور محنت کشوں کو پکارنے وقت کا دھارا ہی تبدیل کردیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب بیرسٹر عامر حسن کے یقین وامید سے بھرپور خیالات پر چیئرمین نے باآواز بلند ’’ان کی نامزدگی کو اپنا اور پارٹی کا متفقہ اور بہترین انتخاب‘ ‘ قرار دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد وطن عزیز کے اس سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سب سے بڑے تاریخی شہر لاہور میں رکھی گئی تھی۔1970 کے قومی انتخابات سے لے کر بی بی کی شہادت تک جب جب، جو جو اور جیسے جیسے بھی عام قومی انتخابات منعقد ہوئے پارٹی کے بانی چیئرمین اور بی بی شہید نے اپنی اپنی زندگی کے آخری دن تک ان انتخابات کی قیادت، جدوجہد ا ور امیدواروں میں ناقابل شکست حوصلے پیدا کئے رکھے۔ 1970کے عام قومی انتخابات کی کہانیاں تو اب ایک خولب آمیز سی داستان بنادی گئی ہیں۔ ہر عام قومی انتخاب میں چاہے وہ کوئی ضمنی نشست ہی کیوں نہ تھی، قیادت ورہنمائی کی مشعل بی بی شہیدکےہاتھوں میں ملک کے چاروں کونوں سے دیکھی جاسکتی تھی۔ اسی لاہور میں بی بی نے عام قومی انتخابات کے ہرموقع پر ہر قسم کی رکاوٹوں، مصائب، ڈپریشن، پارٹی کی اندرونی شکست و ریخت اور مخالفین کی طوفانی مہمات کے باوجود لاہور کی سرزمین کو اپنی تاریخ ساز انتخابی جدوجہد کے جھنڈے تلے جاگتے رہنے پرمجبور کردیا ۔ وہ ایسے دنوں میں لاہور آتیں، یوں لگتا جیسے ایک نئے لاہور نے ایک نیا سیاسی جنم لے لیاہے!
اب نہ پارٹی کا وہ قومی سیاسی باغ اس طرح رہا نہ باغبان نہ اس باغبان کی تاریخ ساز سیاسی وراثت۔ عوام نے اس کی قیادت اور اس کے منشور کو حرزِ جاں بنایا۔ مخالفوں نےظلم وستم اور شقاوت قلبی کی انتہائوں کو بھی عبور کرلیا۔ اب تک بھی پیپلزپارٹی کا خون پینے کی ان کی پیاس بجھ نہیں پائی۔ شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے آئینی مدت مکمل کرنے کی تاریخی قومی خدمت میں تو خود کو سرخرو کرلیا، آج قوم پوری ذہنی مضبوطی کے ساتھ اس جمہوری پارلیمانی نظام کے تسلسل اورووٹ کے ذریعے ہی اس کی خامیاں کوتاہیاں دور کرنے کو ’’صراط مستقیم‘‘جان کر اپنے سیاسی سفر پر مطمئن ہے۔ لیکن اس دورانئے میں پیپلزپارٹی کے ان شاہی بھکاریوں (Carpet Beggars) نے اس جماعت کی قربانیوں کو اپنی ہوس پرستانہ سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔ حلقہ 122 این اے سے پارٹی کا جواں سال امیدوار بیرسٹر عامر حسن شب و روز دروزے دروازے، گلی گلی، کوچے کوچے پیپلزپارٹی کا جھنڈا اٹھائے، صحیح معنوں میں ’’عام آدمی‘‘ کے طور پر جیسا کہ وہ خود بھی ’’عام کلاس‘‘ ہی کا جم پل ہے،اپنی انتخابی مہم میں جُتا ہواہے۔ فضا میں عوام آج بھی پیپلزپارٹی کا نعرہ اور غریب عوام کے ساتھ اس کےانمٹ رشتےکی آواز سننے کو ترس رہے ہیں، یہی سبب ہے جس نے بیرسٹر کی کارنر میٹنگوں کی رونق توقع کے قطعی برعکس دوبالا کر رکھی ہے۔ عوام کا اپنے ساتھ رشتے کی اس جڑت کا انتظار ہی بحران کی کنجی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اسی بندتالے کو کھولنا ہے!