اسلام آباد (محمدصالح ظافر…خصوصی تجزیہ نگار) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ہمدم دیرینہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اپنے خلاف نکتہ چینی کا شائستہ لفظوں میں جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا ضمیرمطمئن ہے اور اللہ تعالیٰ کے بعد میں اپنے ضمیر کےسامنے جوابدہ ہوں۔ منگل کی شام اپنی نیوزکانفرنس میں اور بعدازاں غیررسمی گفتگومیں انہوں نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف خان کے عائد کردہ الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یاد دلایا کہ وہ 35 سال سے پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ وابستہ ہیں، اس دوران دنیا وی لحاظ سے وہ وزیراعظم کو بھی جوابدہ ہیں لیکن اپنےکردار اور ضمیر کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہاکہ محض الزام عائد کردینا کسی کو مجرم نہیں ثابت کرسکتا۔ اگر کہیں کوئی غلط بات ہوگی تو اس بارے میں بے دھڑک کہہ دوں گا۔ انہوں نے بتایا کہ 1999 میں جب وہ وفاقی کابینہ میں شامل تھے تو ایک اجلاس میں جہاں 8وفاقی وزرا نے وزیراعظم کی ستائش میں گفتگو کی ان میں ایک ایسے وزیر بھی شامل تھے جو آج نوازشریف کے خلاف حددرجہ غیرذمہ دارانہ گفتگو میں ماخوذ ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ میں نے وزیراعظم نوازشریف کی خصوصی اجازت سے ان سے استدعا کی کہ آج سے ملک میں خوشامد پر پابندی عائد ہوجانا چاہئے اور اس کی ابتدا وفاقی کابینہ سے ہو، اس پر وفاقی وزرا مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے ہمیشہ وزیراعظم سے بات چیت میں ہر معاملے کے دونوں پہلوئو ں پر روشنی ڈالی ہے، نوازشریف نے ہمیشہ اس کا خیرمقدم کیا ہے۔چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم نوازشریف نے رسمی طور پر نجی گفتگو میں ہمیشہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انہیں کبھی کسی کرپشن کی تائید کرتے نہیں دیکھا۔چوہدری نثار علی خان کی عمران خان سے ایام طالب علمی سے دوستی رہی ہے، ایچی سن کالج کی کرکٹ ٹیم کے دونوں ایک ساتھ رکن رہے، دو روز قبل عمران نے چوہدری نثار علی خان کو اپنی نیوز کانفرنس میں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں اور نوازشریف کا وہ کس طرح ساتھ دے رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے چوہد ر ی نثار سے اپنے دوستانہ تعلق سے برآت کا یہ کہہ کر اعلان کیاکہ دوستی نظریئے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ دونوں کے درمیان تعلقات اگست 2014 کے دھرنے کے بعد ختم ہوگئے تھے، جب عمران خان نے ٹیکسٹ پیغام کے ذریعے انہیں حلفاً یقین دلایا تھا کہ وہ دھرنائیوں کو خط احمر (ریڈ زون) اسلام آباد میں نہیں لے جائیں گے۔ جس پر انہیں آب پارہ اسلام آباد تک آنے کی سہولت دے دی گئی تھی تاہم خان اپنی یقین دہانی سے پھر گئے اور ممنوعہ علاقے میں چلے گئے جس سے حکومت اور عوام کیلئے شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔