• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل بینک قرضوں کی معلومات چھپانے والے اہلکاروں کے نام 10 روز میں بتائے، رضا ربانی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے نیشنل بنک آف پاکستان کی جانب سے مختلف افراد اور کمپنیوں کو دیئے اور معاف کروائے گئے قرضوں کی فہرست ایوان بالا کو فراہم نہ کرنے کے حوالے سےرولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قانون و قاعدہ کے تحت کوئی بھی فرد، ادارہ اور حکومت پارلیمان سے تفصیلات کو مخفی نہیں رکھ سکتا،حکومت خاص طور پر وزارت خزانہ نے جن قوانین کا سہارا  لیا ہے جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تفصیلات ذاتی نوعیت کی ہیں اور بینکنگ کمپنی آرڈیننس1962 کے سیکشن 33-A  اور تحفظ اقتصادی اصلاحات ایکٹ 1992 کے سیکشن 9کے تحت قرض دہندگان کو تحفظ حاصل ہے جو کہ بلا جواز اور غلط ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران 50لاکھ یا اس سے زیادہ قرض لینے والوں، واپسی اور قرضہ معاف کروانے والوں کی تفصیلات 10 دن میں فراہم کی جائیں، ذمہ داران کیخلاف کارروائی سے آگاہ کیاجائے۔ چیئرمین سینیٹ نے اس رولنگ کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ سنیٹر چوہدری تنویر خان نے ان افراد اور کمپنیوں کے حوالے سے سوال کیا تھا کہ جنہوں نے پانچ ملین یا اس سے زیادہ کے قرضے پچھلے پانچ سال میں نیشنل بنک سے لئے ہیں،جن قرضوں کی واپس ادائیگی کی گئی اور جن کو معاف کروایا گیا۔جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پارلیمان سے دانستہ معلومات چھپانے سے اس ایوان اور اس کے ارکان کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر قانون و انصاف کے موقف کی روشنی میں نیشنل بنک حکومت کے ذریعے دس دن کے اندر اس ایوان کو معلومات فراہم کرے کہ نیشنل بنک اور وزارت خزانہ کے وہ کون سے افراد تھے جنہوں نے پارلیمان کو غلط معلومات اورجواب دیا اور ان افراد کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ آئین کے تحت کوئی بھی معلومات صدارتی حکم نامے کے تحت تو روکی جا سکتی ہیں نہ کی پارلیمنٹ کے ایکٹ کےتحت۔ تحفظ اقتصادی اصلاحات ایکٹ 1992کے سیکشن 9اور بنکنگ کمپنیز آرڈینینس1962کے سیکشن33-Aکی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوانین کسی طرح سے بھی عوامی اہمیت کی معلومات اور تفصیلات طلب کرنے میں پارلیمان کے اختیارات کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور نہ کبھی بنے ہیں۔قرض دہندگان کے ناموں کی معلومات نہ تو بنکنگ ٹرانزیکشن سے متعلق ہیں اور نہ ہی اس کا تعلق صارفین کے معاملات سے متعلق معلومات لینا ہیں۔حکومت یہ سمجھتی تھی کہ ناموں کی تفصیلات ذاتی نوعیت کی ہے تو اس سلسلے میں سینیٹ کے قواعد و ضوابط و انصرام کار 2012 کے تحت چیئرمین سینیٹ سے باقاعدہ درخواست کی جا سکتی تھی جو کہ اس کیس میں نہیں کی گئی۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ نیشنل بنک نے موقف اختیار کیا تھا کہ کوئی بھی بنک یا مالیاتی ادارہ  اپنے صارفین کی معلومات ظاہر نہیں کر سکتاتاہم پانچ ملین یا اس سے زیادہ قرضو ں کے اعداد و شمار جو کہ 360ارب کے لگ بھگ ہے، نیشنل بنک نے قرضوں کی صورت میں دیئے ہیں اور اس عرصے میں 271ارب روپے واجب الادا ہیں جس میں 216ارب ریگولر قرضے اور 55ارب نان پرفارمنگ لونز ہیں جبکہ پچھلے پانچ سال میں کوئی بھی قرضہ معاف نہیں کیا گیا۔اس جواب کے انچارج وزیر نے بھی ضمنی سوالوں کے جواب میں تائید کی تھی۔ تاہم سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے ایک تحریک پیش کی جس کی حمایت سینیٹرز سعید الحسن مندو خیل، نعمان وزیر خٹک، محمد عثمان خان کاکڑ، سلیم مانڈوی والا، تاج حیدر اور مولانا حافظ حمد اللہ  نے کی جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پارلیمان سے کوئی بھی معلومات مخفی نہیں رکھی جا سکتیں۔ قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے بھی اس نقطہ نظر کی تائید کی جبکہ وزیر قانون و انصاف زاہد حامد حکومتی نقطہ نظر کو درست قرار دیتے رہے اور حکومتی موقف پر قائم رہے۔ چیئرمین سینیٹ نے  اپنی رولنگ میں سنیٹر اعظم خان سواتی کے سوال  میں دیئے گئے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں سنیٹر اعظم خان سواتی کے اسی طرح کے سوال کا 22جولائی کو تفصیلی جواب دیا گیا جبکہ وہی وزارت اسی طرح کے ایک اور سوال پر کہتی ہے کہ عوامی مفاد میں اس کو ظاہر نہیں کیا سکتا۔ سینیٹ نے سابق سینیٹر قمر الزمان شاہ، سابق سینیٹر راجہ نرگس زمان کیانی کے انتقال پر الگ الگ تعزیتی قراردادوں اورپولیس ٹریننگ سنٹر کوئٹہ پر دہشتگردوں کے حملے کے خلاف قرارداد مذمت کی متفقہ منظوری دی جبکہ اس دوران  سابق سنیٹرز سید قمر الزمان شاہ‘ راجہ نرگس زمان کیانی، سینیٹر روبینہ عرفان کی صاحبزادی، کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والے اہلکاروں، گڈانی میں بحری جہاز میں ہونے والے دھماکے کے شہداء، کراچی میں ٹرین حادثے، موٹر وے پر حادثے میں جاں بحق ہونے والوں کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی  بھی کی گئی۔
تازہ ترین