’’ڈی ٹو‘‘(دھرنانمبر 2)، یا اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی کھلے سمندر سے مچھلی پکڑنے کی مہم کے مترادف تھی۔ مچھلی چارہ نگل بھی سکتی تھی ، یا پھر، بقول یوسفی صاحب، ایک اور مثل کے مطابق گھوڑا بھی پہل کرسکتا تھا۔ اس کا اعلانیہ مقصد وفاقی حکومت کو مفلوج کرکے وزیر ِاعظم کو زبردستی منصب سے ہٹانا تھا۔خدا کا شکر ہے کہ خیر گزری۔
اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے پی ٹی آئی دو عوامل پر تکیہ کررہی تھی۔ ایک یہ کہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سونامی اسلام آباد امڈ آئے اور وفاقی حکومت کو بہا لے جائے ۔ یا کم از کم عوام کی تعداد اتنی ضرور ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اُنہیں کنٹرول نہ کرپائیں۔ دوسرا یہ کہ فوج سول حکام کی معاونت کے لئے تیار نہ ہو، سوائے اس شرط کہ وزیر ِاعظم رضاکارانہ طور پر اپنے منصب سے الگ ہوکرکسی قسم کی قومی حکومت کے قیام کے لئے تیار ہوجائیں تاکہ پاناما کیس کی تحقیقات اور تازہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے ۔ گزشتہ چند ہفتوں سے فضا میں کاکڑ فارمولے کی بازگشت پورے عروج پر تھی۔ 90 کی دہائی میں کاکڑ فارمولے کی ’’فعالیت ‘‘ کے لئے کسی ملین مارچ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ عوام کو ’’زحمت ‘‘ سے بچانے کے لئے ہمارے پاس 58(2)(b) موجود تھی۔ اس کے لئے فقط ایک عدد صدر کی ضرورت تھی جو بدعنوانی اور آئین سے انحراف کی پاداش میں منتخب شدہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے آمادہ اور مستعد ہو۔ حکومت کو اتمام ِ حجت کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا موقع مرحمت کیا جاتا، لیکن اس سے صورت ِحال تبدیل نہیں ہوتی تھی ، کیونکہ ’’تبدیلی ‘‘ آچکی ہوتی۔ ماضی میںمقتدر ادارہ اس بات کو یقینی بناتا کہ حکومت سیدھی گھر جائے ، بے کار قوم کا وقت ضائع نہ کرے۔
آرٹیکل 58(2)(b)کی غیر موجودگی میں آپ کو حکومت کو گھر بھیجنے کے لئے مقتدرادارے کی مدد حاصل کرنی ناگزیر ، لیکن اس کے لئے ایسی صورت ِحال پیدا کرنی پڑے گی جس سے ملک میں بریک ڈائون ہوجائے ۔ پھر آرمی چیف کا بھی طالع آزما ہونا لازمی (اور موجودہ فوجی قیادت ایسی ہرگز نہیں)تاکہ وہ اپنی شرط رکھے بغیر حکومت کو مشکل سے نکالنے پر آمادہ نہ ہو۔ اس کےلئے آپ کا وزیر ِاعظم بھی ایسا ہو جو حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے چپ چاپ گھر چلا جائے ، تاکہ بعد میں پھر اقتدار سنبھالنے کے لئے زندہ رہنے کی امید رکھے ۔ اس کیس میںآرمی چیف قوم کو باور کرائے کہ وہ اقتدار کو ہر گزطول نہیں دے گا، بس حالات ساز گار ہوتے ہی عوام کی امانت عوام کو سونپ کر گھر واپس بیرک میں چلاجائے گا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے تو وہ نواز حکومت کو چلتا کرنے کی کوشش میں ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے رہی ہے جو اقتدار سنبھالنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ کاکڑ فارمولے کا ذکر کیا جارہا تھا۔ اسلام آباد بند کرنے سے کئی ہفتے پہلے وزیر ِاعظم نواز شریف نے واضح کردیا تھا کہ وہ لڑنے کے لئے تیار ہیں،حالانکہ اس میں بھی خطرہ تھا کیونکہ اگر امن وامان کی صورت ِحال ہاتھ سے نکل جاتی تو مقتدر قوتوں کو مداخلت کرنا پڑتی۔ یہاں پی ٹی آئی کی کمزوری شاید پہلی مرتبہ آشکار ہوئی ، کہ اس کے ’’سخت جان ‘‘ کارکن تقریریں کرنے اور رقص و موسیقی میں تو اپنی مثال آپ ، لیکن امن و امان کی مطلوبہ صورت ِحال موسیقی سے بہرحال پیدا نہیں ہوتی ، چاہے راگ دیپک ہی کیوں نہ چھیڑ دیں۔ چنانچہ پی ٹی آئی پہلی شرط پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ۔ یہاں آسمانی طاقتوں نے اس کی عزت، جو مارگلہ کے دامن میں تار تار ہوہی چلی تھی، کا بھرم رکھ لیا، اور سپریم کورٹ نے یکم نومبر کو سماعت کی منظوری دے دی۔ کہا جاتا ہے کہ اچھے کی امید رکھیں اور بدترین حالات کے لئے تیار رہیں۔ کیا پی ٹی آئی سے دوسرے مرحلے پر دانائی کی توقع کی جاسکتی ہے ؟عمران خان چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بہت بڑے مداح تھے ، یہاں تک کہ چیف صاحب نے خاں صاحب کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ 2013 ء کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے ۔ عمران انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لئے رات دن ایک کیے ہوئے تھے ۔
دراصل بات یہ ہے یہ قانون کی عدالتیں ہیں ، اخلاقیات یا کسی کے سینے میں موجزن جذبات کی پاسداری ان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ قانون کہتا ہے کہ جو شخص کسی پر الزام لگاتا ہے ،ثبوت فراہم کرنا بھی اُسی کی ذمہ داری ہے ۔ قانون یہ ’’اخلاقی جواز ‘‘بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اگر کوئی جماعت الزامات لگائے اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اُنہیں سچ مان لے، تو ثابت کرنے کی ذمہ داری مبینہ ملزم پر شفٹ ہوجاتی ہے ۔ ہاں میڈیا ٹرائل میں ایسا ہوتا ہے ، قانون کی عدالتوں میں نہیں۔ ایک اور بات، ہمارا قانون ’’adversarial‘‘ ہے ، اس میں یا تو کیس ہارنے والا ہوتا ہے ، یا جیتنے والا۔ اگر اب تک نوازشریف اور اُن کے بچوں کے خلاف موجودہ قوانین کے تحت سزا دلانے کے لئے کافی شہادتیں موجود ہیں، تو پھر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ چہ معانی دارد؟پٹیشنز دائر کرنے والے کسی بھی عدالت میں جرم کا ثبوت فراہم کردیتے، مقدمہ شروع ہوجاتا اور عدالت فراہم کردہ مواد کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیتی۔ اس کیس میں مزید انکوائری کی حاجت کیوں محسوس ہوئی ؟دراصل اپوزیشن جماعتیں کسی خصوصی قانون کے تحت کمیشن کے قیام کا مطالبہ اس لئے کررہی ہیںکیونکہ اُن کے پاس پاناما کیس پر مطلوبہ ثبوت موجود نہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے اعتزاز احسن اور دیگر قابل وکلا کی معاونت سے پاناما پیپرز انکوائری ایکٹ 2016 کے مسودے اور ٹرمز آف ریفرنس کی تیار ی میں پانچ غیر معمولی معرکے مارے ۔ پہلا یہ ہے کہ اس نے پاناما پیپرز کی انکوائری کے لئے حکمران فیملی کے ارکان کا ذکر کیا ہے ، لیکن نواز شریف کا نام براہ ِ راست شامل نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے الزام لگاکر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری اُس فیملی پر ڈال دی جس پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے اثاثوں اور بیرونی ملک اکائونٹس اور جائیدادوغیرہ کا ثبوت فراہم کریں۔ تیسرا یہ کہ اس نے مذکورہ فیملی اور افراد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کمیشن کو اپنے بنک اکائونٹس اور غیر ملکی اکائونٹس تک مکمل رسائی دیںتاکہ فورنسک آڈٹ ممکن ہوسکے ۔ چوتھا یہ کہ اس کا مطالبہ ہے کہ سمندر پار اکائونٹس میں جن سینکڑوں افراد کا نام آیا ہے ، اُنہیں چھوڑ کر صرف حکمران خاندان کے افراد سے اس کی تحقیقات شروع کی جائیں۔ اور پانچواںیہ صرف پاناما تک ہی تحقیقات کو محدود کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، یہ دیگر عوامی عہدیداروں کے دبئی، سوئٹزرلینڈ اور پیرس وغیرہ میں جائیداد اور اثاثوں سے اغماض برتتا ہے ۔
ایسے قانون کے بغیر، جسے پی ایم ایل (ن) کی اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کبھی بھی منظور نہیں کرے گی، عدالت کی طرف سے متعین کردہ یک رکنی کمیشن ٹی او آر طے کرے گا۔ اس صورت میں ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری پٹیشن فائل کرنے والوں پرہوگی۔ یہاں ایک اور سوال اٹھے گا کہ کیا کسی قانونی فرم سے چرائے گئے اور افشا شدہ پیپرز قانون کی نظر میں معتبر شہادت ہیں یا نہیں؟اس کے علاوہ سمندر پار اکائونٹس تک رسائی کیسے حاصل ہوگی؟یہ مرحلہ یقینا ہماری محترم عدالت کی اتھارٹی سے باہر ہے ۔ اس کے علاوہ یک رکنی کمیشن صرف ایک خاندان کے افراد کو طلب کرنے اور دیگر سے اغماض برتنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔ مزید یہ کہ مبینہ مالی معاملات کئی عشرے پرانے ہیں، چنانچہ قانون کا ماضی کے معاملات کو کھنگالنے سے گریز اپوزیشن کے سامنے ایک اور رکاوٹ ہوسکتی ہے۔
ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مشق لاحاصل ثابت ہوگی۔ پی ٹی آئی نے نواز شریف کی بدعنوانی کو موضوع بناتے ہوئے جو غل غپاڑہ مچایا اور پھر ثبوت فراہم کرنے سے قاصر نکلی، اس نے 2018 ء کے انتخابات کے لئے نواز شریف اور پی ایم ایل (ن) کے ہاتھ ایک کلین چٹ تھما دی ہے۔
.