• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آغا حشر کاشمیری ڈرامہ ’’باپ کا گناہ‘‘ میں کہتے ہیں کہ انسان کے اکثر گناہ اس کی آئندہ نسلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ آج کی میڈیکل سائنس میں Genetics ایک منفرد سائنس ہے جو انسانوں کے رنگ و روپ ، خوبیاں اور خامیاں آئندہ نسلوں میں منتقل ہونے کا اشارہ کرتی ہے۔ چند لوگوں کی بیماریاں جن میں دل کی بیماری، دماغی امراض ، ذیابیطس ، کینسر آئندہ نسلوں میں منتقل ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہادری، بزدلی، سستی ، کاہلی ، جفاکشی اور ذہانت ،باپ سے بیٹے میں اور پھر پوتے اور آئندہ نسلوں میں منتقل ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی مختلف اقوام کا مرکب ہے۔ سب سے پہلے وسطی ایشیا سے آریا آئے اور انہوں نے یہاں کے قدیم باشندوں ، دراوڑ کو بے دخل کردیا، یونانی دوسال تک شمالی مغربی علاقوں میں حکومت کرتے رہے اس کے بعد موریا خاندان اور اشوک کی اولادیں حکمراں رہیں اور ان کے بعد عرب ، افغانی ، ترک ، ایرانی ، مغل ، تاتاری اور ہن حملہ آور ، مختصر افواج لےکر اس خطے کو فتح کرتے رہے۔ محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور بابر کی حملہ آور افواج چند ہزار سے زیادہ نہیں تھیں۔ محمود غزنوی نے اس خطے پر سترہ حملے کئے اور فتح یاب رہا۔اس کے بعد افغانی،غوری،مغل،ابدالی،سکھ اور انگریز اس خطےکو آسانی سے فتح کرتے رہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر1947ء تک مسلمانوں کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا اور 1971ء میں دوخلت ہوا۔ باقی ماندہ پاکستان ہر شعبے میں زوال پذیر ہے۔ genetic سائنس کے مطابق پاکستان میں کمزور ، کم علم ، نااہل اور بدعنوان جینز کی بتدریج افزائش نے ایک بھیانک عفریت کی شکل میں غلبہ حاصل کرلیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ نسل درنسل کمزور اور بری جینز کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ ذہنی نشوونما کے اعتبار سے 12ویں صدی میں آکسفورڈ کیمبرج ، پیرس، اٹلی اور اسپین میں درس گاہیں قائم ہوگئی تھیں۔ 10ویں صدی میں جامعۃ الازہر قائم ہوئی۔ 11ویں اور 12ویں صدی میں بغداد علوم و فنون کا گہوارہ بنا۔ سعدی ،شیرازی ، جابر بن حیان، بوعلی سینا، مولانا روم، شمس تبریز، رازی علم کی شمعیں روشن کرتے رہے لیکن موجودہ پاکستان کے خطے علم و ہنر میں دنیا سے صدیوں پیچھےرہے۔ 1860میں انگریزوں نے پہلی ریلوے لائن،پہلاتعلیمی ادارہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور قائم کیا۔جب کہ اسی سال دیوبند میں ایک درخت کے نیچے دینی مدرسہ دیوبند قائم کیا۔اس لحاظ سے اس خطے کے عوام کی ذہنی نشونما وتحقیق و تخلیق کی دنیا کی مقابلاتی دوڑ میں صدیوں پیچھے رہ گئی ہے۔ آج انٹرنیٹ کی وجہ سے علم کا خزانہ ہر شخص کی دسترس میں ہے اور کوئی شخص تعلیمی اداروں کے باہر بھی دنیاوی علوم سے استفادہ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک سے ایک قابل مقرر ، گلوکار ، مفکر ، رائٹر، ڈاکٹر، انجینئر، بنتے دیکھے مگر ملک کی سیاست اور نظامت پر کم علم اور ناہل لوگ ، ناقص نظام کی بدولت براجمان ہوتے رہے۔ سفارش ، اقربا پروری ، رشوت ستانی ، میرٹ کے قتل عام نے اس قوم پر نااہل افراد مسلط کئے ۔1956میں ایک حکمراں کا ایک لاکھ رشوت لینے کا تذکرہ ہے۔1960کی دہائی میں مغربی پاکستان کے ایک ڈی جی پر12ہزار اور ایک ڈپٹی سیکرٹری پر8ہزار روپے کی رشوت کا الزام تھا جو آج12ارب روپے روزانہ کی رشوت کے مقابلے میں ایک مذاق لگتا ہے۔تاریخ سے ہمیں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ اس خطے میں کوئی منظم اور خودمختار حکومت قائم نہیں رہی۔ یہاں علم کو فروغ حاصل نہیں ہوسکا۔ طویل عرصے تک انجینئر، سائنس دان پیدا نہیں ہوئے۔ حملہ آوروں کے خلاف کوئی موثر مدافعت نہیں ہوسکی۔ اس ملک کے عوام پر صدیوں سے ذہنی پسماندگی ، بزدلی ، غلامانہ ذہنیت اور نااہلی کے اثرات غالب رہے۔ صدیوں سے کمتر جینز، برتر جینز پر غالب ہیں۔ ان بری جینز سے نجات حاصل کرنے کے لئے آنے والی نسلوں میں اصلاح کی طویل جدوجہد اشد ضروری ہے جو موجودہ کرپٹ نظام حکومت میں ممکن نہیں۔دنیا کی تاریخ پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کی ترقی یافتہ قومیں ، برطانیہ ، فرانس ، اسپین ، جرمنی ، امریکہ ، روس ، چین وغیرہ ایک عظیم جدوجہد اور انقلاب کے ذریعے کامیابی اور کامرانی سے ہم کنار ہوئیں۔ کیا کسی دانشور، مفکر ، سیاستدان، سائنس دان کے پاس کوئی حل ہے؟ موجودہ نام نہاد جمہوری نظام حکومت ، جس میں وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، اراکین اسمبلی ، چھوٹی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے محکوم و مجبور ہوتے ہیں، ناکام ہوچکا ہے چہرے نہیں، نظام کو بدلو ایک مقبول عام نعرہ ہے۔ اس لئے ہمیں چہرے نہیں نظام کو بدلنا ہوگا اور ایک نیا نظام لانا ہوگا۔
تازہ ترین