• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان تحریکِ انصاف وسطی پنجاب کے آرگنائزر چوہدری محمد سرور نے دلچسپ بات کہی جس پر سو، سو طرح سے مضمون باندھے جاسکتے ہیں، مثلاً منحصر ہونے پر جس کی اُمید...... یا، دِل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے (دوسرے مرحلے کے ) نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اِن میں ، اُن کے لئے کچھ بھی خلافِ توقع نہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا، بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبائی دارالحکومت میں پی ٹی آئی کی عبرت ناک شکست پر لاہور کے آرگنائزر شفقت محمودنے رضاکارانہ استعفیٰ دیاتو منہ پھٹ اخبار نویس کا چوہدری صاحب سے استفسار تھا کہ صوبے میں شکست کی (اپنے حصے کی ) ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وہ کب مستعفی ہوں گے؟تو ان کاجواب تھاکہ وہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اُنہوں نے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے لئے جو ٹارگٹ متعین کیا تھا، وہ حاصل کرلیا۔
دوسرے مرحلے کے انتخابی نتائج پر گزشتہ شب فرمایا کہ اس میں اُن کے لئے حیرانی یا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ انہوں نے اپنی قیادت اور کارکنوں سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی نے10فیصد کامیابی حاصل کرلی تویہ ہمارے لئے ’’گڈ نائٹ‘‘ ہوگی اور 15فیصد کامیابی کی صورت میں ’’گریٹ نائٹ‘‘ (جس کا چوہدری صاحب خواب بھی نہیں دیکھتے تھے۔) چند چھوٹے موٹے شہروں کے نتائج کی جمع تفریق کے ساتھ، جس میں وہ آزاد امیدواروں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال رہے تھے، چوہدری صاحب اِسے پی ٹی آئی کے لئے ’’گڈ نائٹ ‘‘ قرار دے رہے تھے۔حیرت ہے کہ خود کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت قرار دینے اور مئی 2013کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے والی جماعت کے صوبائی کنوینئر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنے لئے صرف دس فیصد کامیابی کا ٹارگٹ متعین کرتے اور اِسے ’’گڈنائٹ‘‘ قرار دیتے ہیں(اور 15فیصد کامیابی کو، اگر یہ ’’معجزہ‘‘ ہوجائے، فتحِ مبین سمجھتے ہیں)۔
عمران خان اور پی ٹی آئی سے ہمدردی کا وافر جذبہ رکھنے والے ایک تجزیہ کار کو جمعہ کی صبح ایک مارننگ شو میں اعتراف تھا کہ پہلے مرحلے کی طرح بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج بھی 11مئی 2013کے عام انتخابات کی توثیق ہیں۔ تب پی ٹی آئی اپنی جن پاکٹس میں قومی وصوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں نکالنے میں کامیاب رہی تھی، وہیں اب بلدیاتی انتخابات میں بھی اس نے قدرے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی کے بقول ، میانوالی ملک بھر میں پی ٹی آئی کا مضبوط ترین گڑھ ہے لیکن وہاں بھی پی ٹی آئی میونسپل کمیٹی کے انتخاب میں اکثریت حاصل نہیں کرسکی کہ تنہامقامی حکومت بنا سکے۔ یہاں 27میں سے پی ٹی آئی نے13نشستیں حاصل کیں،باقی 14میں سے 3پر مسلم لیگ(ن) اور 11پر آزاد اُمیدار جیتے۔ یہ قومی اسمبلی کا وہ حلقہ ہے جہاں مئی 2013کے انتخابات میں ڈاکٹر شیر افگن مرحوم کے صاحبزادے امجد خان نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ یہیں پڑوس میں عیسیٰ خیل ہے، عمران خان کا ’’آبائی ‘‘ حلقہ، جہاں سے وہ مئی 2013میں منتخب ہوئے لیکن اس نشست پر ضمنی انتخاب میں، ان کا نامزد اُمیدوار بدترین شکست سے دوچار ہوا(پی ٹی آئی کے ساتھ یہی معاملہ پشاور میں ہوا تھا، جہاں عمران خان کی جیتی ہوئی نشست پر، ضمنی انتخاب میں اے این پی کے غلام احمد بلور نے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کو بھاری اکثریت سے شکست دی)۔ اب بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں، عیسیٰ خیل میں پی ٹی آئی کا صفایا اس طرح ہوا کہ یہ 16میں سے 15نشستیں ہار گئی۔ حالانکہ ان دونوں حلقوں میں بلدیاتی انتخابات کی مہم میں عمران خان خود پہنچے اور گلی گلی، کوچے کوچے ریلیوں کی صورت میں زور لگادیا۔
تادمِ تحریر، انتخابی نتائج کے مطابق پنجاب کے 12اضلاع میں، دوسرے مرحلے کے ان انتخابات میں، مسلم لیگ(ن) نے958، آزاد اُمیدواروں نے 785 اور تحریکِ انصاف نے303نشستیں حاصل کی تھیں۔ (پیپلزپارٹی کے لئے 12، قاف لیگ کے لئے 10اور جماعتِ اسلامی کے لئے 10نشستوں کے ساتھ عبرت کے گزشتہ مناظر ہی کا اعادہ تھا)۔
جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کی اتنی بڑی تعداد میں کامیابی ایک نیا الیکشن ’’فنامینا‘‘ (Phenomenan) ہے۔ پاکستان میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان پہلے بلدیاتی انتخابات سے قبل خود سیاسی جماعتیں بھی غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات کی خواہاں رہی ہیں کہ پارٹی ٹکٹوں کے اجراء کی آزمائش سے بچ سکیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ مقامی سطح پر ایک سے زیادہ دھڑے اور ایک سے زیادہ مؤثر اور متحرک سیاسی کارکن ہوتے ہیں جو کسی ایک ہی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا، اپنا حق سمجھتے ہیں۔سیاسی جماعت کے لئے مشکل یہ ہوتی ہے کہ کسے اپنائے اور کسے محروم رکھے۔ غیر جماعتی انتخابات میںکھلی چھٹی ہوتی ہے کہ جس کا جی چاہے ، قسمت آزمالے۔ جو بھی جیتے گا، اپنا ہی ہوگا۔ جماعتی بنیادوں پرانتخابات میں سیاسی جماعتوں کو آزمائش کا یہی مرحلہ درپیش تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے بہتر حکمتِ عملی اختیار کی کہ ایسے بیشتر حلقوں کو آزاد چھوڑ دیاکہ جو بھی جیتے گا، وہ مسلم لیگی ہی ہوگا۔ کہیں ایسا بھی ہوا، کہ مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ یافتہ اُمیدوار کے مقابلے میں کوئی دوسرا مسلم لیگی آزاد کھڑا ہوگیا۔ اسے بھی جیت کر اپنی پارٹی ہی میں آنا تھا۔ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں آزاد اُمیدواروں کی کامیابی اگرچہ کوئی پسندیدہ بات نہیں لیکن جب تک سیاسی جماعتوں کی تنظیم گراس روٹ تک نہیں ہوگی، یہ مسئلہ درپیش رہے گا۔کالم لکھتے ہوئے، ہم چائے کے گھونٹ کے لئے دم بھر کو رُکے، سامنے ٹی وی پر نظر ڈالی، تو جناب پرویز رشید کی میڈیا سے گفتگو کے ’’ٹکر‘‘ چل رہے تھے۔ جناب پرویز ، چوہدری سرور کو ان کا وعدہ یاد دلا رہے تھے کہ حلقہ 122کے ضمنی انتخاب میں(جس میں سردار ایازصادق دوبارہ منتخب ہوگئے)وہ دھاندلی کے ثبوت مہیا نہ کرسکے، تو سیاست سے ریٹائرہوجائیں گے۔ حلقہ 122کے ضمنی انتخاب کے لئے تحریک ِ انصاف کی ایک ایک شرط اور ایک ایک مطالبہ پورا کیا گیا۔ اس کے باوجود سردار ایازصادق، گزشتہ کی نسبت قدرے کم ووٹوں کے ساتھ ہی سہی، کامیاب ہوگئے تو پی ٹی آئی کا کہنا تھا، اس کے ساتھ پھر دھاندلی ہوگئی ، جس کا اِسے قبل ازوقت اندازہ نہ تھا......ووٹر لسٹوں میں ردوبدل...... اس دھاندلی کے ثبوت جمع کرنے کی ذمہ داری خود چوہدری سرور نے اپنے کندھوں پر لی۔ اس کے لئے اُنہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کی تاریخ بھی دے دی جسے بعد میںعشرۂ محرم کے باعث ملتوی کردیا۔ گزشتہ دِنوں انہوں نے بعض اخبار نویسوں کے سامنے’’ردوبدل والی ‘‘فہرستیں پیش کیں لیکن الیکشن کمیشن کا ریکارڈ ایک مختلف کہانی بیان کرتا ہے جس کے مطابق اس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں ۔ جناب پرویز کی چوہدری صاحب کو یاددہانی بجا ، لیکن ہمارے خیال میں اپنے ہاں کی سیاست میں دعوے اور وعدے چلتے ہی رہتے ہیں۔ یہ شاعروں کے مشرقی محبوب کی کہہ مکرنیوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ وہی’’رات گئی بات گئی‘‘ والی بات۔یا پھر
اُمید تو بندھ جاتی، تسکین تو مل جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے، وعدہ تو کِیا ہوتا
امجد اسلام امجد بھی یادآئے
دلِ عشاق تو بچوں کی طرح ہوتا ہے
اس کے بہلانے کو وعدے کا کھلونا ہی سہی
تازہ ترین