• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے اکثر محفلوں میں بہت سے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ لوگ کتابیں پڑھنا چھوڑ گئے ہیں ،چنانچہ اب یہ گوداموں میں پڑی صاحبان ذوق کا انتظار کرتی رہتی ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کتاب نہ بکنے کی بات یا پبلشر حضرات کرتے ہیں یا وہ ادیب جن کی اپنی کتاب نہیں بکتی اور مزے کی بات یہ ہے کہ پبلشر یہ ’’نامنافع بخش‘‘ کاروبار بھی نہیں چھوڑتے اور لکھنے والے کتابیں لکھنا بھی بند نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کتابیں نہیں بکتیں ،ان میں سے بہت سی اس قابل ہوتی ہیں کہ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیاجائے لیکن لکھنے والوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کتاب کی اشاعت سے پہلے کتاب کی پروموشن ضروری ہوتی ہے اور یہ پروموشن فیس بک پر اپنی نگارشات پوسٹ کرنے اور ان پر دو چار سو’’لائک‘‘ آنے سے نہیں ہوتی اور نہ ہی کتاب کی تقریب رونمائی سے ہوتی ہے کہ یہاں نوے فیصد باتیں مروت اور مصنف سے اپنے تعلقات کی مناسبت سے ہوتی ہیں۔ کتاب کی پروموشن غیر معیاری ادبی جرائد میں تخلیقات کی اشاعت سے بھی ممکن نہیں۔ میرے نزدیک کتاب قاری تک دو تین صورتوں میں پہنچ سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ مصنف خواہ غیرمعروف ہو مگر کتاب اتنی طاقتور ہو کہ اپنے راستے کی ساری رکاوٹیں دور کرکے ’’وائرس‘‘ کی طرح پھیل جائے اور اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی تخلیقات ان معتبر ادبی جرائد میں اشاعت کے لئے ارسال کی جائیں جن میں شائع ہونا’’میٹر ‘‘ کرتا ہے، ان میں سے چند ایک جرائد پاکستان کے علاوہ انڈیا سے بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک ذمہ داری ادیب کی یہ ہے کہ اس کی تحریر محض جمالیاتی نہ ہو بلکہ اس کا مواد ہماری زندگیوں سے بھی’’میل جول‘‘ رکھتا ہو۔ نقاد کا فرض یہ ہے کہ وہ چند افراد کے چنگل سے اپنے ذہن کو رہا کرے اور پوری غیر جانبداری سے ادبی منظر نامے کا جائزہ لے۔ پبلشر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی ڈسٹری بیوشن کے نظام میں ان کتابوں کو بھی جگہ دے جن کی سفارش ان کے معتبر مشیر کریں۔ ایک بڑی ذمہ داری ہمارے میڈیا بطور خاص الیکٹرانک میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ناظرین میں کتب بینی کا ذوق پیدا کریں اور ان کتابوں پر فوکس کریں جو اپنے اندر مضبوط Contentرکھتی ہوں۔
ان امور سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ مستند ادیبوں کی کتابیں آج بھی کروڑوں کی تعداد میں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتی ہیں۔ آکسفورڈ پریس والے ہر سال کراچی میں کتابوں کی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں جہاں خریداروں کا رش دیدنی ہوتا ہے، یہی منظر پنجاب یونیورسٹی میں بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن نے کتاب سے محبت کے حوالے سے قابل قدر کام کئے ہیں، چنانچہ ان کی سالانہ کتابوں کی نمائش میں تین دن میں تین چار کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں ، اسی طرح دوسرے بہت سے ادارے سال بھر اس نوع کی نمائشوں کا اہتمام کرتے ہیں اور قارئین تھیلوں میں بھر بھر کر کتابیں اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔
تاہم ایک خرابی خود ادیبوں نے پیدا کی ہے مگر یہ ان کی مجبوری ہے۔ وہ اپنی کتاب جب کسی پبلشر کے پاس لے کر جاتے ہیں تو پبلشر اس کتاب کو قصائی کی نظر سے دیکھتا ہے اور اندازہ لگاتا ہے کہ اس’’بھارُو‘‘ سے اسے فائدہ پہنچتا ہے یا الٹا نقصان ہوگا؟ اور اس کے بعد وہ99فیصد کتابوں کی اشاعت سے انکار کردیتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے مگر ادیب فطری طور پر اپنی کتاب کی اشاعت کا خواہشمند ہوتا ہے، چنانچہ متذکرہ صورت میں وہ خود’’بھارُو‘‘ بننے کا فیصلہ کرتا ہے، اس کے نتیجے میں پبلشر اس کی کھال اتارنے کے لئے اپنے چاقو چھریاں تیز کرتا ہے اور اس سے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے کی رقم کا تقاضا کرتا ہے۔ ادیب اپنے بچوں کا رزق پبلشر کے حوالے کردیتا ہے اور بیشتر صورتوں میں ایک ہزار یا پانچ سو کی تعداد میں کتاب کی اشاعت کا وعدہ کرکے اس سے کچھ زیادہ کتابیں شائع کرتا ہے جو اس نے ادیب کو’’معاہدے‘‘ کے تحت دینا ہوتی ہیں، اس صورت میں ایک کتاب بھی کسی ایک اسٹال پر نہیں پہنچتی، بس مصنف کے دوستوں میں مفت تقسیم ہو کر رہ جاتی ہیں اور یوں مصنف قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ ہی نہیں پاتا کہ وہ کتاب کے معیار کو جانچ سکیں اور یوں مصنف کی ساری کاوش اور ساری رقم بظاہر ضائع چلی جاتی ہے۔
یہاں میں نے لفظ ’’بظاہر‘‘ اس لئے استعمال کیا ہے کہ ادب تخلیق کرنا اپنے طور پر ایک’’منافع بخش‘‘ کام ہے، ادیب جب لکھ رہا ہوتا ہے وہ اس وقت نفع و نقصان سے بے نیاز ایک سرشاری کی کیفیت میں ہوتا ہے ۔لکھنا ایک صوفیانہ فعل ہے، جب عام لوگ زراندوزی میں لگے نظر آئیں کچھ درویش اس وقت تخلیقی گیان دھیان میں مشغول ہوتے ہیں، جب وہ اپنی تخلیق مکمل کرلیتے ہیں ان کی روح شانت ہوجاتی ہے، چنانچہ کسی بھی صورت وہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے تاہم اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ سچے ادیبوں کے منظر عام پر آنے کے رستے کی رکاوٹیں دور نہ کی جائیں، اس کے لئے ہم سب کو خود مصنفین کو، میڈیا کو اور پبلشروں کو اپنے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ادب کافروغ دہشت گردی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے کہ آج تک جتنے بھی دہشت گرد گرفتار ہوئے ہیں ان میں ایک بھی ادیب نہیں تھا۔


.
تازہ ترین