• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے روس کو گوادر پورٹ کے استعمال کی اجازت دے دی

Pakistan Allowed Russia To Use Gwadar Port
پاکستان نے تجارتی مقاصد اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے روس کو گرم پانیوں تک رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماسکو اور اسلام آباد کے مابین گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات اور روس کی انٹیلی جنس فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ الیگزینڈر بورٹنی کوو جنہوں نے گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا  اور پاکستان کے اعلیٰ سطح  کے عسکری و حکومتی حکام سے ملاقاتیں کی تھیں، اس دوران ہونے والے مذا کرا ت کے نتیجے میں پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کوشامل کرنے کا باضابطہ فیصلہ کرلیا ہے۔

اس طرح روس کو گوادرپورٹ کے ذریعے تجارتی مقاصد کے لیے گرم پانیوں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ اطلاعات کے مطابق روس کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے کوتجا ر تی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے دونوں ملکوں کی حکومتوں کے مابین آنے والے دنوں میں باضابطہ معاہدے کیے جائیں گے۔

ترکمانستان اور ایران کی جانب سے بھی گوادر بندرگاہ سے اپنی گیس برآمد کرنے کی خواہش اس پورٹ کو توانائی کی عالمی راہدری میں تبدیل کر دے گی۔ اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو نہ صرف پاکستان کو ٹرانزٹ فیس ملے گی بلکہ گیس کو ایل پی جی میں تبدیل کرنے کی سہولتوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکے گا، یہاں تک کہ پاکستان مزید ایل این جی بھی حاصل کر سکے گا۔

انٹراسٹیٹ گیس سسٹم کے ایم ڈی مبین صولت نے اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیس پیدا کرنے والے ان دونوں ممالک کی خواہش ایک اچھی پیش رفت ہے اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی ترکمانستان، ایران اور پاکستان کی کامیابی ہوگی، یاد رہے کہ ایران پہلے ہی سی پیک میں شمولیت کیلئے پاکستان سے رابطہ کرچکا ہے اور اس حوالے سے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایرا ن کے صدر حسن روحانی نے وزیراعظم نواز شریف سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا حصہ بننے کی درخواست کی تھی۔ادھر روس کے ساتھ مستقبل قریب میں ہونے والے رابطے اور معاہدے محض سی پیک منصوبے تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ دونوں ممالک میں  انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق روس ابتداسے ہی سی پیک کا حصہ بننے کے لیے خواہش مند تھا تاہم ماسکو کوسکیورٹی کے حوالے سے بعض خدشات تھے لیکن حال ہی میں چین سے آنے والے کنٹینرز کے قافلے جب گوادر سے بحفاظت مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک پہنچے تو روس کے خدشات دور ہوگئے اور ابتدائی امور پربات چیت کو  نتیجہ خیز شکل دینے کے لیے اقدامات کیے گئے۔

انہی ذرائع کے مطابق روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع  پر پاکستان کے جن حکام سے ملاقاتیں کی تھیں ان میں آئیایسآئی کے سربراہ جنرل رضوان اخترسمیت  اعلیٰ دفاعی افسران بھی شامل تھے اس موقع پر آئی ایس آئی کے چیف نے روس کی فیڈرل سکیورٹی سروسز کے سربراہ کو جہاں سکیورٹی خدشات سے متعلق  یقین دھانی کرائی تھی وہیں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پربھی تبادلہ خیال کیا تھا۔ واضح رہے کہ روسی خفیہ ادارے کے کسی بھی سربراہ کا14سال بعد پاکستان کا یہ پہلادورہ تھا اور انہوں نے اپنے دورہ پاکستان کو ہرحوالے سے انتہائی کامیاب اور بامقصد قرار دیا تھا۔

اس موقع پر انہیں جو تحائف پیش کیے گئے تھے ان میں قیمتی پستول بھی شامل تھے۔روس کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شرکت کی خواہش کا اظہار اور اس کی تکمیل کی جانب پیشرفت ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشیش اور دعوے کر رہا ہے لیکن وہ محض خوش فہمی پر مبنی دعوے ہی ثابت ہو رہے ہیں اور سی پیک میں روس کی شمولیت سے بھارت کے ان پاکستان مخالف جارحانہ منفی عزائم کو شدید دھچکا  لگا ہے۔

پاکستان اور روس کے تعلقات میں پیش رفت سے آگاہ ایک اعلی اہلکار کا کہنا تھا کہ اگر سی پیک میں روس کی شمولیت کی خواہش کا تجزیہ کیا جائے اور حال ہی میں ایران کی جانب سے سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش کو اس سے ملا کر دیکھا جائے تو کچھ ممالک کا ایک نیا علاقائی بلاک ابھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ روس، ایران، چین اور پاکستان کا ایک نیا اسٹریٹجک الائنس بننے جارہا ہے۔اس سے نہ صرف بھارت کی جانب سے پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوشش ناکام ہوجائے گی بلکہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے متوقع گٹھ جوڑ سے پاکستان کو جو  ٹف ٹائم  ملنے کا خدشہ ہے اس کو بھی بے اثر کیا جا سکے گا۔
تازہ ترین