• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا سوچئے! کیسا لطف رہے کہ کہ ہم سے ہر ایک کے گلے میں اس کی سوچ اور فکر کا سال وفات لٹکا دیا جائے۔ معلوم تو ہو کہ کون سا خوش لباس مردہ کب سے کرہ ارض پر آکسیجن ضائع کر رہا ہے۔ کچھ خوش نصیب ہیں کہ ابھی تک بغداد کے دربار میں زندہ ہیں۔ کچھ کی آنکھوں میں ابھی تک دربار اودھ اور لال قلعہ بس رہے ہیں۔ کچھ بزرگ ابھی تک ضیاالحق کے عہد میں زندہ ہیں۔ کچھ دانش مندوں کے لیے ابھی تک سرد جنگ ختم نہیں ہوئی۔ کچھ عبقری تو ایسے ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے ریڈیو پر ویت نام جنگ کی خبریں سننا چاہتے ہیں۔ آج کے حالات کے تجزیے کے لیے ضروری ہے کہ یہ تو معلوم کیا جائے کہ آج کہاں ، کیاہو رہا ہے۔ ہماری تیر اندازی کی زد میں آنے والے شعبے میں علم اور مہارتوں کی موجودہ سطح کیا ہے۔ ہمیں خطابت کی گرما گرمی میں مردہ پرست کہہ دیا جاتا ہے ۔تاریخی طور پر ہمیں یہ خطاب مولانا ظفر علی خان اور سید عطااللہ شاہ بخاری نے دیا تھا۔ موجودہ صورت حال میں ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ ہم محض مردہ پرست ہیں یا خود مردہ ہو چکے ہیں۔ معاف کیجئے گا یہ خیالات اتوار کے روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب کے ارشادات عالیہ کے ردعمل میں پیدا ہوئے۔ اتفاق سے چوہدری نثار علی ہمارے ملک کے وزیر داخلہ ہیں ۔ پریس کانفرنس کا اچھا خاصا حصہ انہوں نے مذہب کے بارے میں ایسی پرمغز گفتگو پر ضائع کیا جو پرائمری اسکول کے کمرہ جماعت کے لیے زیادہ مناسب ہوتی۔ چوہدری صاحب تو پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں۔ کیا مذہب کوئی سیاسی یا ریاستی مظہر ہے جس کا چوہدری صاحب دفاع کرنے نکلے ہیں۔ اللہ رکھے،مذہب کا دفاع کرنے والے بہت ہیں اور چوہدری نثار علی کو سمجھنا چاہئے کہ اپنی چراگاہ میں کوئی کسی کو گھسنے نہیں دیتا۔ پاکستان میں جسے کوئی ریاستی منصب دیا جاتا ہے وہ بغداد کے دربار کا مؤرخ بن جاتا ہے۔ ایسے ہی جیسے ایک صاحب کو 1965ء کی جنگ میں اعزازی کرنل بنایا گیا تو انہوں نے صحافیوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا تھا کہ سویلین لوگ فوج کی نزاکتیں نہیں سمجھتے۔
خدا خیر کرے ۔فوج کا ذکر پھر آیا ۔ محتاط طبیعتوں کے لیے اسے شہر ممنوع سمجھنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو کسی بھلے مانس کی آڑ لے لینی چاہیے۔ بازیابی کے بعد سے برادر بزرگ بہت اچھا لکھ رہے ہیں۔ تازہ ارشاد ہے کہ’’ فوج پاکستان کو جدید خطوط پر استوار نہیں کرسکتی، یہ سیاسی قیادت کا کام تھا، لیکن اس انتہائی اہم محاذ پر کچھ نہیں ہورہا۔‘‘ بجا فرمایا ، پیرو مرشد۔ سیاست دانوں کی نااہلی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا ۔ تاہم خیال رہے کہ آج جس بیانیے کی مخالفت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ ماضی میں عسکری اداروں ہی نے تشکیل دیا تھا کیونکہ دفاعی ادارے سیاسی عمل اور قوم کے امکان کی تحکیم کرنا چاہتے تھے او ر اس ضمن میں مذہبی سیاست کو مفید مطلب پاتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاست پر کاٹھی ڈالنے کی پالیسی حتمی طور پر ترک کر دی گئی ہے۔ ماضی کی پالیسی کے حتمی اور جامع استرداد کے بغیر سیاسی قیادت نازک اور حساس معاملات پر مفلوج ہی رہے گی۔ ان کہے خدشات موجود رہیں گے کہ کہیں کوئی دفاع پاکستان کونسل کو اشارے تو نہیں کر رہا۔ کسی نے کینیڈا میں طاہر القادری سے رابطہ تو نہیں کیا۔ کسی محفوظ گھر میں سیاست کی نئی صف بندی تو نہیں ہو رہی۔ کیبل ایسوسی ایشن والے کیا سوچ رہے ہیں۔ ابھی شہری سندھ کے رہنے والوں نے ایم کیو ایم کو اپنی نمائندگی کے لیے چنا ہے ۔ کیا اب ایم کیو ایم کے کسی رکن کے مبینہ جرائم کو سیاسی جماعت سے الگ کر کے دیکھا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے چوہدری نثار علی خان صاحب نے کہا ہے کہ چند گمراہ افراد کے کارناموں کو مسلمانوں کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ دیکھئے، مذہبی مجادلے کو بطور سیاسی بیانیہ اپنایا جائے گا تو اس کی اجتماعی آنچ بھی بھگتنا پڑے گی۔ وزیر داخلہ سرکاری پریس کانفرنس میں مذہب کی تشریح فرماتے ہیں تو سیاسی اسلام کی حدود میںداخل ہو جاتے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پیدا ہونے والے قومی اتفاق رائے کی آڑ میں سیاسی قوتوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہاہے ۔ یہ تاثر زائل کرنا چاہیے کیونکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف قومی عزم متزلزل ہوتا ہے۔
وزیرداخلہ فرماتے ہیں کہ عمران فاروق قتل کیس میں معاملہ عدالتی ہے اور اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ درست فرمایا ۔ تاہم عدالت میں تو بہت سے معاملات رکھے ہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ قتل ری اوپن ہوا تھا اس پر پیش رفت سے بھی قوم کو آگاہ کرنا چاہئے اور میمو گیٹ اسکینڈل تو کل کی بات ہے ۔ اب کیا غداری کے اس مقدمے میں دلچسپی ختم ہو گئی یا یہ آم بھی مشرف غداری کیس کی طرح پال میں لگا دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ نیکٹا کے غیر فعال ہونے پر حساس حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔چوہدری نثار علی کو وزارت داخلہ کے اختیارات کی وسعت بیان کرنے سے شغف ہے ۔ غالباً نیکٹا کے معاملات بھی انہی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
چوہدری نثار علی کی خوش بیانیاں براہ راست نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد سے متصادم ہیں۔ چوہدری صاحب مغرب دشمنی کی چنگاریوں کو ہوا دینا پسند کرتے ہیں۔ قوم کا جو طبقہ دہشت گردی کی مزاحمت میں یکسو ہے، اسے برگشتہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ یورپ سے وطن واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کی عزت نفس کا چوہدری صاحب خاص خیال رکھتے ہیں ۔ برادر اسلامی ملک میں قید دو ہزار پاکستانیوں کا چوہدری صاحب نام نہیں لیتے جنہیں وکیل کی سہولت حاصل ہے ، نہ دفاع کا حق اور ہر برس اوسطاً پچاس پاکستانی سزائے موت پاتے ہیں۔ پاکستان میں مغرب دشمنی کو ہوا دینا عین دہشت گردوں کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کے ضمن میں کسی کا شخصی حدود اربعہ جاننے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کے اہل خانہ کس ملک میں مقیم ہیں اور وہ اپنی پارسائی کی سند کس ملک سے لیتا ہے۔
کفایت لفظی چوہدری نثار علی کی خوبی نہیں۔ کفایت لفظی کی بہت اچھی مثال امریکی صدر اوباما کا اتوار کی شام قوم سے خطاب تھا۔ کیا ہواہے ؟ کس نے کیا ہے؟ اس پر کیا ردعمل دیا جائے گا؟ ریاستی اداروں اور سیاسی قوتوں کا کیا فرض ہے؟ بین الاقوامی دوستوں سے کیا توقعات ہیں اور یہ کہ کن نکات پر خبردار رہنا چاہیے۔ بارہ منٹ کی تقریر میں سب کچھ کہہ دیا۔ اظہار کی آزادی پر یقین رکھنے والے یہ مطالبہ تو نہیں کر سکتے کہ الطاف حسین کی گیت مالا تقریروں کی طرح چوہدری نثار کی تقویٰ بھری پریس کانفرنسوں پر بھی پابندی لگا دی جائے تاہم یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا راولپنڈی کا پٹوار سرکل نہیں ہے۔ چوہدری صاحب بیک وقت قوم کی یادداشت اور سیاسی شعور کی توہین کرتے ہیں۔
ہمارے اجتماعی حادثے میں وہ منظر محفوظ ہے جب 1992ء کے موسم گرما میں ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کی گئی تو چوہدری نثار آبدیدہ ہو گئے تھے۔ 1999ء میں قوم پر پیغمبری وقت پڑا تو چوہدری صاحب نظر ہی نہیں آئے۔ گزشتہ آٹھ قومی انتخابات میں 2002ء واحد موقع تھا جب چوہدری نثار علی خان نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا۔ 2013ء میں سکندر نامی ایک شخص اسلام آباد پر چڑھ دوڑا تو چوہدری صاحب کہیں استراحت فرما رہے تھے۔ یقینا استراحت میں راحت ہے۔ 2014 ء میں چوہدری صاحب نے حکیم اللہ محسود پر حملے کو امن پر حملہ قرار دیا تھا۔ چوہدری نثار علی ایک اور دنیا میں بستے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان ایک اور دنیا کی کہانی ہے ۔ چوہدری صاحب کی دنیا میں آزادی کی لڑائی لڑنے والوں کو دہشت گرد نہیں کہنا چاہیے۔ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنا چاہیے۔ طالبان اچھے اور برے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ ہم ان تنظیموں سے کیوں لڑیں جنہوںنے ہماری زمین پر کوئی دہشت گردی نہیں کی۔ چوہدری صاحب قومی ریاست کو مقامی زورآوری کا بہانہ سمجھتے ہیں۔ چکری راجگان کا چوہدری ہونے اور پاکستان کا وزیر داخلہ ہونے میں فرق نہیں سمجھتے۔ ہم سب کی گرد ن میں آویزاںتختیوں پر کوئی نہ کوئی برس کندہ ہے مگر چوہدری نثار علی… تو جدا ایسے موسموں میں ہوا، جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔
تازہ ترین