• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
10 اپریل 1986ء کو محترمہ بینظیر بھٹو طویل جلاوطنی گزار کر جب وطن واپس آئیں تو ان کا لاہور میں پاکستان کا سب سے بڑا استقبال کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد خان جونیجو وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی آمد سے پہلے حکومت کے بڑوں نے بہت سے اجلاس منعقد کئے جس میں بینظیر کی ملک واپسی کے اثرات اور استقبال کے انتظامات کے بارے میں غور کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں کچھ لوگوں نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ ان کے پاکستان آمد پر حکومت کس طرح رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے۔ محمد خان جونیجو اپنے ساتھیوں کی سب باتیں سنتے رہے لیکن انہوں نے اپنی کابینہ سے طویل مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی جائے۔ بلاشبہ اس دن پورا لاہور ان کے استقبال کیلئے ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مَیں اور گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے پشاور گئے ہوئے تھے۔ خصوصی طیارے پر جب لاہور واپسی ہوئی تو ہمیں آسمان سے ہی زمین پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ مسلم لیگ میں ہوتے ہوئے میری پی پی کے مرکزی رہنما اور بھٹو خاندان کے قریبی دوست پیار علی الانہ کے ساتھ گہری دوستی تھی۔ انہوں نے مجھے پارٹی میں شامل ہونے کیلئے قائل کیا۔ دوسری طرف مَیں بھی مسلم لیگ کی قیادت سے خاصا دلبرداشتہ ہو چکا تھا۔ پیار علی الانہ نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات اور پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو جاؤں۔ مَیں نے ایک کاغذ پر اپنا استعفیٰ لکھا۔ طے شدہ وقت کے تحت مَیں محترمہ بینظیر بھٹو سے پہلی ملاقات کیلئے 70-کلفٹن کراچی پہنچ گیا۔ ہم نے اُن کے ساتھ روزہ افطار کیا۔ ملاقات میں محترمہ نے کہا ضیاء دور میں پیپلز پارٹی ملتان میں خاصی کمزور ہو چکی ہے آپ کی شمولیت سے پاکستان پیپلز پارٹی ملتان ڈویژن کو نئی زندگی ملے گی اور اس کے بعد اُن کو مَیں نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تو کہنے لگیں مجھے یقین نہیں آرہا کہ آپ نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مَیں فی الحال آپ کا استعفیٰ میڈیا میں نہیں دے رہی کیونکہ آپ کے اس استعفے کو مَیں وزیراعظم محمد خان جونیجو کے مستقبل قریب میں دورۂ امریکا کے موقع پر استعمال کروں گی۔ مَیں نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد محترمہ نے ملتان پیپلز پارٹی کی تنظیم کی ہدایت کی کہ میری کراچی سے واپسی پر ملتان میں شاندار استقبال کریں۔ ینظیر بھٹو نے جب دوسری مرتبہ کابینہ میں توسیع کی تو مجھے وزیرِ سیاحت بنایا۔ اُس دور کی بے شمار یادوں کو مَیں اپنی کتاب ’’چاہِ یوسف سے صدا‘‘ میں قلمبند کر چکا ہوں۔ 1990ء میں جب صدر غلام اسحٰق خان نے اپنے اختیارات کے تحت بینظیر حکومت ختم کی تو نئے انتخابات سے پہلے عوام میں یہ تاثر عام تھا کہ بینظیر بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں نہیں آنے دے گی لیکن اس کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی نے ہر حلقے میں ہزاروں ووٹ حاصل کئے۔ 90ء کے انتخابات میں نواز شریف کامیاب ہوئے اور محترمہ بینظیر بھٹو قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ انہوں نے ہاؤس میں بھرپور انداز میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا جس کے نتیجے میں صدر غلام اسحٰق خان نے اپنے اختیارات کے تحت نواز حکومت کو برطرف کر کے اسمبلی تحلیل کر دی۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ نواز حکومت بحال کر دی لیکن صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافات اتنے بڑھ چکے تھے کہ دونوں کو مستعفی ہو کر نئے انتخابات کی طرف جانا پڑا۔ 1993ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک مرتبہ پھر اکثریت حاصل ہوئی، محترمہ نے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے ا سپیکر کے عہدے پر نامزد کیا۔مَیں یہ سوچتا ہوں کہ محترمہ نے جس انداز سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ پاکستان کیلئے کام کیا وہ انہی کا ہی خاصہ تھا۔ انہوں نے اپنے والد کی طرح اپنی سیاست کو ہمیشہ عوامی رکھا اور عوام کی طاقت کے بل بوتے پر دو مرتبہ انتخاب جیت کر وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئیں۔ انہوں نے نجکاری اور ڈی ریگولیشن جیسی پالیسیاں اپنا کر معاشی اصطلاحات کیں۔ 48000 نئے پرائمری اور مڈل اسکول تعمیر کئے۔ خواتین ججوں کا تقرر کرنے کے علاوہ خواتین ہی کیلئے پولیس اسٹیشن اور مخصوص بینک قائم کئے۔ خواتین کے کھیلوں پر پابندی ہٹا کر انہیں ملکی اور غیر ملکی سطح پر کھیلوں میں شرکت کے مواقع فراہم کئے۔ مزدور اور طلبہ یونین بحال کیں۔ سزائے موت کے تمام قیدیوں کی سزا عمرقید میں تبدیل کر کے کئی خاندانوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کیا۔ ملک میں میزائل ٹیکنالوجی کی فراہمی اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات کی فضا خوشگوار بنائی۔ انہی کے دورِ حکومت میں ہندوستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنےسے متعلق مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی۔ مسئلۂ کشمیر کو اپنے دونوں ادوار میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھا۔ انہی کے دور میں پاکستان کو دولتِ مشترکہ کا دوبارہ رکن بنایا گیا۔ 1997ء سے لے 1999ء تک محترمہ نے بھرپور انداز سے حزبِ اختلاف کے قائد کی حیثیت سے کردار ادا کیا۔ مشرف دور میں انہی کی کوششوں کی وجہ سے میثاقِ جمہوریت تشکیل پایا اور جب اکتوبر 2007ء میں اُن کی وطن واپسی ہوئی تو دہشت گردوں نے اسی دن ہی ان کو ختم کرنا چاہا تھا۔
آخرکار ملک دشمن عناصر 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ کو ہم سے دور لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات میں عوام نے بینظیر کی شہادت کو ووٹ دیئے اور اسکے بعد جب میںبطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد حلف نامے پر دستخط کر رہا تھا تو میری آنکھوں میں آنسو تھے اور مَیں سوچ رہا تھا بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مجھ پر کتنی بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے۔آج محترمہ کی شہادت کو 9 برس بیت گئے اور یوں لگتا ہے جیسے میرے موبائل پر اُن کا فون آئے گا اور وہ اپنے مخصوص انداز میں میری خیریت دریافت کریں گی لیکن یہ سب کچھ اب خواب و خیال ہی ہے۔

.
تازہ ترین