ذوالفقار علی بھٹو کا شعبہ اگرچہ سیاست اور قانون تھا لیکن وہ تاریخ اور تعمیرات یا ارکیٹکچر سے بھی بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے ڈھاکہ کے ایک اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ملک کو ایسا دیکھنا چاہتا ہوں جہاں سب شہر پیرس ہوں اور ساری سڑکیں روم کو جاتی ہوں۔ آج اس بڑے بھٹو یا بھٹو دی گریٹ کی سالگرہ ہے۔ جسے اقبال اخوند جیسے منجھے ہوئے سینئر سفارتکار نے تیسری دنیا کا سیزر کہا تھا۔ وہ بھٹو کہ جن کی زندگیاں رومن حکمرانوں جیسی اور ان کا اختتام یونانی المیاتی کہانیوں جیسا تھا۔ کوریو گرافروں یا بازی گروں نے ان سیزروں اور قلوپطرائوں کی سالگرہ اور برسیوں کے دن کیسے ایک دوسرے کے پیچھے رکھے ہیں کہ گڑی ہیں صلیبیں میرے دریچے میں۔
عظیم لوگو
حسین بچوں
ذہین بچوں
فطین بچوں کو
نظر بد سےبچا کر رکھو
کہ حسین بچوں
فطین بچوں
ذہین بچوں کو
صلیب ملتی ہے اس جہاں میں
پتہ نہیں یہ کس نے کہا جس نے بھی کہا کیا خوب کہا۔
برسوں بیتے نصف صدی آنے کو ہے بھٹو کا جن ہے کہ اترتا ہی نہیں۔ بھٹو مرتا ہی نہیں بلکہ بہت ساروں ارب پتی بھکاریوں اور چوروں چکاروں کی روزی روٹی بنا ہوا ہے۔ ککھ پتی سے کھرب پتی بنانے والا مردہ بھٹو۔
تو تم سے کہہ رہا تھا میں ہر شہر روم کی طرح اور ہر سڑک پیرس کو جاتی ہو۔
جب بھٹو اقتدار میں آیا تو اس کے بہی خواہوں اور بدخواہوں دونوں نے کہا کہ اور کہیں نہیں لیکن اس نے اپنے لاڑکانہ کو پیرس بنادیا ہے۔ پیرس تو ایک کیفیت اور کلچر کا نام ہے نا۔ لاڑکانہ کے لوگ کبھی واقعی لاڑکانہ کے لوگ تھے۔ اسی لئے تو ہمارے شاعر رئیس امروہوی نے بھی اسی اخبار کے انہی صفحات پر اپنے ایک کالم میں کہا تھا:
اگر ہو جیب میں نقدی تو سیر لاڑکانہ ہو
حسینوں مہہ جبینوں کی زیارت کا بہانہ ہو
لیکن بھٹو حکومت کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہونے والے شاعر عوام حبیب جالب نے کہا :’’قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘۔ انکی یہ نظم اداکارہ ممتاز کے نام تھی۔
لیکن لاڑکانہ واقعی لاڑکانہ تھا جسے بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ایک نیا تعمیراتی رخ دیا۔ ایک انفراسٹرکچر دیا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ لاڑکانہ کے علم و ادب کی روشنی میں اپنا لہو ڈال کر اضافہ کرنے والے وہ کئی اردو بولنے والے کنبے بھی بھٹو کے دور حکومت میں لاڑکانہ سے نقل مکانی کر کر گئے اور بھٹو انہیں نہیں روک سکے۔ یہ سب کچھ انکے ٹیلنٹیڈ کزن کے زمانے میں ہوا۔
پر بھٹو کے نام پر آج بھی سندھ میں دوسری بار حکومت ہے لیکن آپ جائیں لاڑکانہ موہنجو ڈارو پر اتریں موہنجو ڈارو کی سیر مت کریں اسی بہانے لاڑکانہ کی سیر کریں۔ واقعی دیکھیں گے یہ رائیس کینال کا پانی ہے کہ گندا برساتی اور گٹروں کا پانی جو شہر میں امڈ آیا ہے، جس کی لہروں پر وڈیروں اور وزیروں کی لینڈکروزر اور غریبوں کی گدھا گاڑی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بس یہیں پر مساوات قائم ہے۔ لاڑکانہ کو آپ سندھ کے باقی شہروں اور گوٹھوں کی گزشتہ دس آٹھ برسوں میں تباہی کی کتاب کا دیباچہ سمجھیں۔ اگر ان دس برسوں میں اینٹ سے اینٹ بجی ہے تو سندھ کےشہروں اور گھوٹوں، انکے انفراسٹرکچر اور پبلک سہولتوں کی بجی ہے۔ باقی بھٹو سدا کا زندہ ہے۔ زندہ رہے گا۔ عوام مرگئے۔ نوابشاہ بھی ایسے ہی شہر کی فوٹو کاپی بنا ہوا ہے۔
کبھی اگر لاڑکانہ پیرس تھا تو گویا روم نوابشاہ تھا۔ ذہین فطین حسین لوگوں کا سندھ میں ایک اور شہر۔ اب اس شہر کا حسن تاراج ہوا۔ اس میں گٹروں سے سونامی بہہ نکلی۔ جب آصف علی زرداری صدر تھے تو دو ہزار دس والے سیلاب میں آپ نے ان کو شلوار کے پائنچے گھٹنوں گھٹنوں اٹھا کر برستے پانی میں بمعہ اپنے کمانڈوز اور ساتھیوں کے اترتے چلتے دیکھا ہو گا۔ یہ ڈرامے تو حقیقت کے رنگ میں بھٹو کو سجتے تھے۔ جس کی ادائوں پر سلمان تاثیر سے لیکر نوابشاہ کے قاضی محمد بخش دھامرا بھی فدا تھے تو لاڑکانہ کے کارکن منگی بھی۔ سلمان تاثیر ایک اور بھٹو بنا دیا گيا۔ اور اب بعض انتہاپسند سابق گورنرکے بیٹے کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ طوطیا وے من موتیا اوس گلی نہ جاویں۔ بیرون ملک سے آکر مذہبی منافرت پھیلانے والوں پر تو کوئی مقدمہ درج نہیں ہوتا جبکہ سابق گورنر کے بیٹے کیخلاف مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔ ریاست اس خاندان سے کتنا خراج لے گی۔ کیا علمائے حق اس مذہبی شدت پسندی پر کوئی رائے نہیں دیں گے۔ وہ بھی غامدی صاحب نہیں بننا چاہتے۔ نہ ہی سوات کے ڈاکٹر فاروق۔
خیر تو بات ہو رہی تھی لاڑکانہ پیرس اور نوابشاہ روم بننے کی۔ اب پھر ان شہروں کو پیرس اور روم بنانے کیلئے ایک قوم کو خوشخبری گڑھی خدا بخش میں سنائی گئی۔ کہ بڑا زرداری نوابشاہ سے اور چھوٹا زرداری لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے انتخابات لڑیں گے۔ کیا نہ پٹاری سے سانپ نکالا گیا ہے۔ واہ مداری تیرا تماشے دکھانا۔ ایک بھٹو تھا جو خوشخبری کے نئے نئے سانپ اپنی پٹاریوں میں سے نکالتا تھا تاشقند معاہدے کی اصل کہانی (جو کہ کبھی نہیں نکلی) سے لیکر ہر شہر پیرس لگے اور ہر سڑک روم کو جاتی ہو تک۔ ایک یہ بھائی لوگ ہیں کہ اینٹ سے اینٹ شہروں اور گوٹھوں کی بجاتے جا رہے ہیں۔
پھر بھی درد کے مارے سندھی عوام ہیں کہ جن کے پاس کوئی اور چارہ ہے نہیں۔ اب تک تو اسی پنسار کے لونڈے سے ہی دوا لیتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’دوسرے کون سے چنگے مڑس ہیں؟‘‘ یعنی کہ دوسرے جو ان کے مخالفین ہیں وہ کون سے بھلے مانس ہیں! پھر بھی میرا ایک سرائیکی وسیب کا جیالا دوست گڑھی سے لیکر سیہون اور بھٹ شاہ اور شیخ ایاز تک سندھ کو ایک زائر کی طرح گھوم کر دیکھتا ہے۔ دیکھے بھی کیوں نہ۔
میں عمران خان کو سیاسی طرح جمہوریت مخالف قوتوں کے کیمپ کا سمجھتا ہوں لیکن وہ انسانی سطح پر اسی لئے بھلے مانس ہیں کہ ان کا بغیر کسی سیاسی مفادات کے شوکت خانم کینسر اسپتال کراچی (جی ہاں کراچی بھی سندھ میں ہک ہے) میں سندھ کے لوگوں کیلئے قائم کرنا ایک نہایت ہی مستحسن کام ہے۔ سندھ کے مخیر لوگوں کو ان کے اس کام میں مدد کرنی چاہئے۔ جناتی بابوں سے زیادہ ایسے اداروں کی ضرورت ہے۔
لیکن سندھ کے لوگ ہیں کہ کبیر بھگت کا وہ کلام بنے ہوئے ہیں ’’ہمن ہیں عشق مستانہ ہمن کو ہوشیاری کیا‘‘ اے سندھ کے لوگو کبھی تو ہوشیار بھی پکڑو! تم نے دیکھا کہ جب واقعی سندھ کا پیرس کہلانے والا شکار پور اس ہفتے چار سو برس کا ہوگیا تو پینے کے پانی کی جگہ اب زہریلا اور کثافتوں سے آلودہ پانی شہر کا نصیب بنا ہوا ہے۔ تم زرداری راج کے کن کن کارناموں کویاد کرو گے؟
.