• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی آج 89ویں سالگرہ ہے۔ 5 جنوری 1928ء کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سیاست میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی پر بے شمار کتب اور مضامین لکھے گئے اور مستقبل میں بھی ملکی و غیرملکی مؤرخین ان کی زندگی اور کارناموں پر قلم اٹھاتے رہیں گے کہ بھٹو صاحب کے ذکر کے بغیر ہماری تاریخ نامکمل رہے گی۔ مَیں بطور سیاسی کارکن کے جب بھٹو صاحب کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے ہمیشہ ان کے افکار سے رہنمائی ملتی ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ملک کی باگ ڈور پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو سونپ دی گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا، لاس اینجلس میں 1947ء سے 1949ء تک زیرِ تعلیم رہے، انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے سے 1950ء میں بی۔اے کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ، برطانیہ سے ایم۔اے کی ڈگری 1953ء میں حاصل کی۔ اسی سال انہوں نے لنکنز اِن، لندن سے بار ایٹ لاء کی۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز وکالت سے اور اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا اقوامِ متحدہ کے وفد میں بطورِ رکن شمولیت سے کی۔ ذوالفقار علی بھٹو عام انتخابات کے ذریعے پہلے منتخب وزیرِ اعظم بنے۔ تعلیم یافتہ اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہترین مقرر بھی تھے۔ اپنے سیاسی کیریئر کے دوران وہ وفاقی وزیر اُمورِ خارجہ رہے اور انہوں نے اس دوران انقلابی اقدامات کئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنا اُن کی کامیاب شخصیت کی علامت ہے۔ کہنہ مشق سیاستدان ہونے کے باعث ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ قائداعظمؒ کے بعد انہیں سب سے بڑا رہنما مانا جاتا ہے۔ سیاسی اُفق پر اُن کی قدآور شخصیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بھٹو صاحب نے 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی جو اس وقت کے مروّجہ سیاسی نظام کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔ انہوں نے عوام کو اظہارِ رائے کی آزادی، اعتماد، مقام اور حیثیت دے کر انہیں اُن کی طاقت سے روشناس کرایا۔ پہلی مرتبہ ’قوت کا سرچشمہ عوام ہے‘ کا تصور پیش کیا جس سے عوام کو عزتِ نفس ملی جو اُن کی بحیثیت عوامی قائد کارہائے نمایاں ہیں۔ بھٹو صاحب نے ملک میں سیاسی ترقی کا عمل آگے بڑھا کر جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ جب انہیں اقتدار ملا تو انہوں نے ملک کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کو خودمختار حیثیت دی اور شمالی علاقہ جات میں اصلاحات کر کے وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق فراہم کئے۔ بھٹو صاحب نے ایسے تاریخی کام کئےجو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت بنے۔ ملک کو اسلام کا قلعہ تسلیم کرایا۔ عالمِ اسلام کا تشخص اُجاگر کرنے، مسلم بلاک کے قیام اور اسلامک ورلڈ بینک کے قیام کے لئے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ غریب اور محکوم طبقے کی خوشحالی اور تحفظ کے لئے زرعی اصلاحات اور سول سروسز اصلاحات کیں۔ اپنی پارٹی کے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے غریب عوام کے لئے 5 مرلہ سکیم کا اجراء کیا۔ انہوں نے مزدور یونینوں کو بحال کیا اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے چارٹر پر دستخط کئے۔ کامرہ ایروناٹیکل اور ہیوی میکینکل کمپلیکس کی تعمیر کروائی۔ انہوں نے نازک ترین حالات میں اقوامِ متحدہ کے سامنے پاکستان کا مؤقف جس جرأت سے پیش کیا اُس سے نہ صرف اُن کی اپنی شخصیت بلکہ پاکستان کی حیثیت اور قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہوا۔ پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی دلوانے کے لئے پورٹ قاسم، ا سٹیل مِل اور شاہراہِ قراقرم جیسے بڑے منصوبے تعمیر کروائے۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ ملک میں قابلِ قبول 1973ء کا متفقہ آئین تشکیل دینا ہے۔
وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں قبل ازوقت عام انتخابات کا اعلان کر دیا جس پر حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے متحد ہو کر پاکستان قومی اتحاد تشکیل دیا۔ پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ حکومت کے خلاف ملک بھر میں تحریک شروع کر دی۔ حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ اس سے پہلے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان معاہدہ طے پاتا جنرل ضیاء الحق نے بھٹو حکومت برطرف کر کے قومی اسمبلی تحلیل کر دی۔ ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور خود چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ بھٹو صاحب کو گرفتار کر کے اُن پر مقدمہ چلایا گیا اور 4؍اپریل 1979ء کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ اُن کو پھانسی دینا نہ صرف ملک بلکہ عدلیہ کی تاریخ میں بھی ایک سیاہ باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔جنرل ضیاء کے مارشل لا سے قبل جب میرے سیاسی سفر کا آغاز ہو رہا تھا تو سیاسی مدّوجزر کا دور تھا۔ بھٹو حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے والا پاکستان قومی اتحاد ابھی میدان میں تھا۔ ملک کے نامور سیاسی مدبرین اور منجھے ہوئے سیاستدان میدانِ سیاست میں تھے اور مجھے سیاسی کیریئر کے آغاز ہی میں نازک اور اہم فیصلہ کرنا تھا۔ چچا حامد رضا جو مختصر عرصے کے لئے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیرِ صنعت اور کینیا میں سفیر تعینات رہ چکے تھے میرے گھر آئے اور کہنے لگے کہ مجھے آپ کے والد کی گراں قدر خدمات کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے انتخاب میں مغربی پاکستان سے نواب آف کالاباغ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ ملے اور دوسری مرتبہ ایم این اے بلامقابلہ کامیاب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج مَیں آپ کے پاس چل کر آیا ہوں کہ آپ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کریں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی بھی یہی خواہش ہے کہ مَیں آپ کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کے لئے آمادہ کروں۔ یہ الگ بات ہے کہ مَیں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز مسلم لیگ سے کیا۔ یہ جماعت پاکستان کو بنانے والی ہے لیکن پی پی پی میں شمولیت کے بعد کئی مرتبہ مَیں نے یہ محسوس کیا کہ اگر مسلم لیگ پاکستان بنانے والی جماعت ہے تو پی پی پی پاکستان بچانے والی سیاسی پارٹی ہے۔ اس پارٹی کی مرکزی قیادت ہمیشہ زیرِ عتاب رہی ہے لیکن اس کے باوجود پی پی پی نے پاکستان کا پرچم بلند رکھا۔
آج5جنوری 2017ء کے موقع پر جہاں مَیں ذوالفقار علی بھٹو شہید کو یاد کر رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ جن لوگوں نے بھٹو کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے کی سازشیں کیں وہ نیست و نابود ہو چکے ہیں جبکہ بھٹو زندہ ہے۔ انہی لمحوں کے لئےجوہر میر نے کہا تھا:
کبھی تو سوچنا یہ تم کیا کیا لوگو
یہ کس کو تم نے سرِ دار کھو دیا لوگو
سلا دیا جسے زنداں میں تم نے موت کی نیند
جگائے گی اسے حالات کی صدا لوگو


.
تازہ ترین