نہ صرف پاکستان بلکہ پوری تیسری دنیا میں قوت برداشت عنقا ہوگئی ہے۔ عام آدمی سے لے کر رہبران ملک و ملت بھی قوت برداشت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز سے لے کر ہمارے ایوانوں تک قوت برداشت عنقا ہونے کے مظاہرے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں جس کا مظاہرہ پوری قوم نے دیکھا۔ پاکستان کے ہر ٹی وی چینل نے اس آپا دھاپی۔ لپاڈگی ۔ چیخم دھاڑ اور مغلظات کو بار بار دکھایا اور ہمارے قلم سے نکلا۔
غلط تھے ہم کہ یہ فکرونظر کا مرکز ہے
یہاں اصول حکومت بنائے جاتے ہیں
ثبوت ایک بہم کل کے معرکے سے ہوا
اسمبلی میں تو مکے چلائے جاتے ہیں
عوام سے لے کر خواص تک آپ غورفرمائیے تو قوت برداشت کادور دور تک پتہ نہیں چلتا۔ ہم سڑک پر ہیں اور کسی سواری پر ہیں تو دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ۔ خدانخواستہ اگر آپ کی سواری کسی سے ٹکرا جائے تودونوں سواریوں کے سوار آپے سے باہر ہو کر ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوجاتے ہیں۔ اور تو اور اساتذہ جو قوم کی تعمیر میں بنیادی پتھر کا کام دیتے ہیں غصے کے عالم میں طلبہ کو اس طرح زدوکوب کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ابھی اسی طرح ایک استاد کی تندی کا شکار ایک بچہ علاج کے لئے باہر جانے کے لئے کوشاں ہے۔ عام اور غیر تعلیم یافتہ افراد کا توذ کر ہی کیا۔ گزشتہ ہفتے ایک منصف کی بیگم نے اپنی نوکرانی کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا ہے اسے بھی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دیکھا گیا۔ عدم برداشت کا یہ عفریت خاندانوں کی بنیادیں بھی ہلا رہا ہے ۔ ساس بہو سے ناراض ہے تو بہو ساس سےشاکی ہے۔ بیٹا باپ سے بے ادبی کررہا ہے تو باپ بیٹے سے نالاں ہے۔ قوت برداشت کی کمی ہی کی وجہ سے طلاقوں کا اوسط بڑھتا جارہا ہے۔ سب سے زیادہ عجیب اور دکھ کی بات یہ ہے کہ مذہبی رہنما جو انسانی اخلاق اور معاشرتی اصولوں کے ذمے دار ہیں اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے لئے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ اس پر یقین نہیں آتا۔ قوت برداشت کی عدم موجودگی کبھی کبھی یہ انتہائی رنگ بھی دکھاتی ہے کہ ایک فرقے کا کوئی فرد دوسرے فرقے کے عالم کو دن دہاڑے قتل کردیتا ہے اور ارباب حل و عقد خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ اور پھر یہ ہوتا ہے کہ مقتول کے فرقے کا کوئی فرد قاتل کے فرقے کے کسی رہنما کو قتل کردیتا ہے۔ اور یہ قتل و غارت انفرادی سطح سے اجتماعی سطح تک پہنچ جاتی ہے جس کا مظاہرہ درندگی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ بے گناہ نمازی شہید کردیئے جاتے ہیں۔ ہم تیسری دنیا کی عدم برداشت کے لئے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان کے لئے ہمیں اس صورت حال کا جائزہ لینا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر عالم وجود میں آیا تھا۔ اور اسلام انسانی اخلاق، شائستگی ، معاشرتی اقدار اور قوت برداشت کا سب سے بڑا حامی ہے۔ اسلامی تاریخ ایسی درخشندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایک غزوے میں سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ایک کافر پر قابو پایا اور اسےقتل کرنے ہی والے تھے کہ اس نے لعاب دہن سے حضرت کے چہرہ مبارک کو ملوث کردیا آپ نے فوراً اسے چھوڑ دیا اور جب اس کافر نے حیران ہو کر اپنے چھوڑے جانے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا کہ پہلے میں تجھے بہ سلسلہ جہاد قتل کررہا تھا لیکن تیری یہ نازیبا حرکت میرے لئے تھی سو میں اپنی ذات کے لئے تجھے قتل نہیں کرنا چاہتا۔ کلام الٰہی ایسے احکامات اور تعلیمات سے بھرا پڑاہے جن سے معاشرے میں حسن اخلاق جنم لے۔ مثلاً فرقان حمید میں یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اپنے بڑوں سے اونچی آواز میں بات نہ کرو۔ پاکستان میں صبح شام، دن رات ہمہ وقت قرآنی تعلیم عام کی جارہی ہیں۔ اخبارات رسائل، جریدے ، ریڈیو ، ٹی وی ہر طرف اسلام کا چرچا ہے۔ مختلف چوراہوں کے اسلامی نام رکھے جارہے ہیں۔ جگہ جگہ کلام الٰہی اور احادیث سرکار دوعالم لکھی ہوئی نظر آتی ہیں یہاں تک کہ عوامی سواریوں میں بھی ان احادیث کا حوالہ موجود ہے اس کے باوجود عوام سے لے کر خواص تک میں عدم برداشت کا دور دورہ کیوں ہے؟ عوام کے لئے تو ہم تعلیم کی کمی اور معاشرتی مسائل کی زیادتی کو عدم برداشت کی وجہ قرار دے سکتے ہیں۔ عام آدمی جو مہنگائی کا مارا ہوا ہے جسے کوئی بھی خالص غذا دستیاب نہیں۔ جو گیس ، بجلی ، پانی سے محروم ہے جس کے چاروں طرف گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ وہ اگر عدم برداشت کا مظاہرہ کرے تو بہت زیادہ تعجب نہیں ہوناچاہئے۔ لیکن جب بہت پڑھے لکھے لوگ جنہیں دنیا بھر کی آسائشات بھی حاصل ہیں اور ان کے کاندھوں پر قوم کی رہبری کی ذمے داری بھی موجود ہے عدم برداشت کا مظاہرہ کریں تو تعجب کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے۔ ہر چند کہ ہمارے علماء اس ضمن میں دن رات کوشاں ہیں اور عوام و خواص کو عدم برداشت اور تشدد سے دور رہنے کی ہدایت کررہے ہیں لیکن جب تک ارباب حل و عقد اس کمزوری پر توجہ نہیں دیں گے معاشرے سے عدم تشدد اور برداشت کے مناظر نہیں دیکھے جاسکتے کاش رہبران ملت ہماری گزارش پر توجہ دے سکیں۔
.