• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
9 فروری 1984 ء کا دن تھا ، جب اس وقت کے آمر جنرل ضیاء الحق نے اسٹوڈنٹ یونینز پر پابندی عائد کر دی تھی ۔ آج اس غیر آئینی اقدام کے 33 سال بعد بھی کسی نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ ضیاء الحق کے اس اقدام کی وجہ سے ہمارا بحیثیت قوم کیا نقصان ہو چکا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم تو ہوتی ہے لیکن تربیت کا عنصر ختم ہو چکا ہے ۔ طلباء کی بہبود کے معاملات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ طلباء کی شخصیت کی نشوونما نہیں ہو رہی اور سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ صحت مند مباحثے کا کلچر ختم ہو چکا ہے ۔
ایک زمانہ تھا ، جب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہوتی تھی ۔ سب سے بہترین تربیت اس زمانے میں ہوئی ، جب اسٹوڈنٹ یونینز کی سرگرمیوں پر پابندی نہیں تھی ۔ 1960ء اور 1970 ء کی دو دہائیوں کے دوران سیاست ، سائنس ، طب ، انجینئرنگ ، کھیل ، ادب سمیت ہر شعبے میں پاکستان کو بہترین قیادت اور غیر معمولی لوگ میسر آئے ، جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ۔ یہ وہ عرصہ تھا ، جب اسٹوڈنٹ یونینز نے نوجوانوں کی تربیت کی ۔ یونین صرف سیاسی سرگرمی کا نام نہیں ہے ۔ اگرچہ سیاسی سرگرمی بھی اس کا لازمی جزو ہوتی ہے لیکن اسٹوڈنٹ یونینز کی دیگر بھی سرگرمیاں ہوتی تھیں ۔ یونینز کے زیر اہتمام مشاعرے ہوتے تھے ۔ کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے ۔ آرٹ اور فوٹو گرافی کی نمائش ہوتی تھی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے عہد کے سیاسی ، فلسفیانہ اور سائنسی موضوعات اور نظریات پر صحت مندانہ مباحثے ہوتے تھے ۔ طلباء اپنے عہد کی دانش سے جڑے ہوتے تھے ۔ انہیں علم ہوتا تھا کہ دنیا میں کیا تضادات ہیں ۔ ملکی ، علاقائی اور عالمی سیاست میں کیا صف بندی ہے اور اپنے حقوق کیلئے کیا راستہ اختیار کرنا چاہئے ۔ نوجوانوں میں مقابلے کی صلاحیت ہوتی تھی اور قیادت کرنے کا جو ہر موجود ہوتا تھا ۔ ہماری آج کل کی سرکاری جامعات ، کالجوں اور اسکولوںمیں زیر تعلیم بچوں میں یہ ساری باتیں مفقود ہیں ۔
طلبا یونینز پر پابندی عائد کرنے کا جو جواز پیش کیا گیا تھا کہ یونین کی سرگرمیوں کی وجہ سے طلبا تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور تعلیمی اداروں میں سیاست پر تشدد ہو جاتی ہے ۔ یہ بات کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے طلباء یونینز کی حوصلہ افزائی کی اور پاکستان کی پہلی طلباء تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی ، جو مسلم لیگ کےطلباء کی تنظیم کے طور پر کام کرتی تھی ۔ مسلم لیگ دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو ایم ایس ایف بھی کئی گروپس میں بٹ گئی ۔ اس خلاء کو پورا کرنے کیلئے دیگر طلباء تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ 1950ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی ۔ طلباکی سیاست میں کوئی تشدد نہیں تھا ۔ تشدد کا آغاز ریاستی اداروں کی طرف سے ہوا ۔ 21 فروری 1952 ء کو ڈھاکہ میں طلبا پر پولیس کی فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا ۔ طلبا یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ بنگالی کو پاکستان کی دوسری قومی زبان تسلیم کیا جائے ۔ وہ پرامن تھے ۔ اسی طرح 1953 ء میں کراچی میں ڈی ایس ایف کے طلبا پر فائرنگ کا بھی کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ طلباپرامن انداز میں مظاہرہ کر رہے تھے اور یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کراچی میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے ۔ ایوب خان نے 1954 ء میں بلا جواز پہلے ڈی ایس ایف پر پابندی عائد کی اور پھر طلبا یونینز پر پابندی لگادی ۔ 1960میں طلبا کی تنظیم NSF نےپہلی دفعہ مارشل لاء کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس طلبا تحریک میں 2 سالہ ڈگری کورس کا نفاذ، بہتر تعلیمی سہولتیں اور دوسرے مسائل کے حوالے سے کامیاب تحریک چلائی جس کے نتیجے میں طلباپر تشدد ہوا مگر طلبا کامیاب ہوئے۔ یہ ایوب کےمارشل لاء کے خلاف طلبا کی پہلی منظم آوازتھی۔طلبا یونینز کے حوالے سے پاکستان کا کیس بالکل الگ ہے ۔ یہاں زیادہ تر غیر جمہوری حکومتیں رہی ہیں ۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھیں کہ طلبا ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں ، جو بعد ازاں سیاسی لیڈر بن کر ابھریں ۔ طلباء یونینز پر پابندی کا بنیادی سبب غیر جمہوری حکومتوں کا یہ ایجنڈا ہے کہ ملک کے اندر سیاست اور سیاسی شعور کو پنپنے نہ دیا جائے اور تعلیمی اداروں سے ایسے نوجوان پیدا کئے جائیں ، جو اپنے عہد کے معاملات سے بے خبر ، مباحثوں سے لاتعلق اور تحرک سے محروم ہوں ۔ صرف پاکستان کے غیر جمہوری حکمراں ہی طلباء یونینز سے خوف زدہ نہیں تھے بلکہ عالمی سامراجی طاقتیں بھی تیسری دنیا میں نوجوانوں کی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کیلئے دباؤ ڈالتی رہیں ۔ جب 9 فروری 1984 ء کو طلبا یونینز پر پابندی عائد ہوئی تو بعض اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ امریکہ نے پاکستان کو ایف ۔ 16طیارے دینے کیلئے جو شرائط عائد کی تھیں ، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ طلباء یونینز پر پابندی عائد کر دی جائے ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک اچھی قوم بنائیں اور ہر شعبے میں ترقی کریں تو ہمیں فوری طور پر طلبا یونینز کی بحالی کا فیصلہ کرنا ہو گا ۔ جنرل ایوب خان کی طرف سے طلبا یونینز پر پابندی ذوالفقار علی بھٹو شہید نے نہ صرف ختم کی تھی بلکہ یونین سرگرمیوں کو قانونی تحفظ دینے کیلئے 1974 ء میں اسٹوڈنٹ یونین آرڈی ننس جاری کیا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو ختم کرنے کی کسی نے کوشش نہیں کی ۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیر اعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں یہ اعلان کیا تھا کہ طلبا یونینز بحال کر دی جائیں گی لیکن اس اعلان پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے گذشتہ دنوں یہ بیان دیا تھا کہ طلبا یونینز پر پابندی غیر آئینی ہے اور یہ معاملہ سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی میں بھیجا جائے گا تاکہ کمیٹی اپنی سفارشات پیش کر سکے ۔
اس حوالے سے بھی تاحال کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی ۔اس وقت پارلیمنٹ میں جتنے سینئر سیاستدان موجود ہیں ، ان کی تربیت طلبایونینز میں ہوئی ہے اور نئے سیاستدانوں کے مقابلے میں ان کے رویے زیادہ جمہوری اور مدبرانہ ہیں۔ انہیں اس حوالے سے کوششیں کرنی چاہئیں اور طلباء یونینز کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔
اس وقت طلبا یونینز کے تصور پر حقیقی عمل درآمد اعلیٰ درجے کے مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں ہو رہا ہے ۔ خاص طور پر امریکی اور برطانوی اداروں کے تحت چلنے والے اسکولوں میں طلباکی وہ تربیت کی جاتی ہے ، جو ہمارے ہاں طلبا یونینز کے زمانے میں ہوتی تھی ۔ طلبا میں مباحثے ہوتے ہیں ۔ سیاست ، فلسفہ ، تاریخ اور ہرموضوع پر مباحثے کرائے جاتے ہیں ۔ کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ مضمون نویسی اور شاعری کیلئے پروگرام کرائے جاتے ہیں ۔
ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں شخصیت کی نشوونما ، شعور میں اضافے اور قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے کیلئے تربیت کا مکمل فقدان ہے ۔ نوجوانوں کو اپنے عہد کے بنیادی نظریات اور تضادات کا علم ہی نہیں ہے ۔ ان میں مقابلے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ تعلیم اور تربیت لازم و ملزوم ہیں ۔ ہمیں کسی تاخیر کے بغیر طلبا یونینز کی بحالی کیلئے کچھ کرنا ہو گا تاکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی مقابلے اور تربیت کا ماحول فراہم کیا جاسکے اور یہاں سے بھی لیڈرز پیدا ہو سکیں ۔

.
تازہ ترین