minhajur.rab@janggroup.com.pk
رواں ماہ احسن اقبال وزیر برائے منصوبہ بندی وترقیا ت جامعہ کراچی تشریف لائے اورچین پاکستان معاشی راہداری منصوبے پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ۔میں لیکچر میں موجود تھا۔ احسن اقبال صاحب نے انتہائی مدلل انداز میں اس منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ منصوبہ کسی ایک شاہراہ کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس میں مختلف راستے نکالیں گئے ہیں۔ جو چاروں صوبوں سے گزریں گے۔ ایک مرکزی راستہ ہے۔ اور بقیہ ذیلی راستے ہیں۔ ان میںسے کئی ذیلی راستے تکمیل کے مراحل بھی طے کرچکے ہیں۔ اس منصوبے پر آنے والے اخراجات چین خود اٹھائے گا۔ اورحکومت پاکستان کو پیسہ منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ چین براہ راست خرچ کرے گا۔ خود ٹھیکیداروں کو ٹھیکہ دے گا اور خود کام کی نگرانی کرے گا۔ اس کے علاوہ سات صنعتی زون قائم کئے جائیں گے۔جو چاروں صوبوں، آزادکشمیر او ر دو مرکز کے تحت ہوں گے۔ ان میں چینی سرمایہ دار بڑے پیمانے پر صنعتیں لگانے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں بجلی کی فراہمی کے لیے کوئلے کی مدد سے بجلی کے کئی منصوبے شروع کئے جارہے ہیں۔ جن کا چینی سرمایہ دار خودپورا انتظام کریں گے ۔حکومت پاکستان کو پیسہ منتقل نہیں کیا جائے گا۔ سارے اخراجات چین یا چینی خود کریں گے۔اور یہ بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کہلائے گی۔ اس کے علاوہ دیگر منصوبوں کے لیے قرضہ دیئے جائیںگے، وہ 2 فیصد شرح سود اور بیس سے پچیس سال کے لیے دیئے جائیں گے ۔ ان کے لیکچر کے اختتام پر وہاں موجود حاضرین جن میں محققین کی ایک بڑی تعداد موجودتھی۔ ان کے لیکچر کو بہت سراہا اور کہاکہ ہمارے دماغ میں موجود بہت سارے ابہام دور ہوگئے ہیں۔اور کئی سوالات کے جواب مل گئے۔ سیمینار میں سوال وجواب کے سیشن میں بڑے دلچسپ سوال کئے گئے۔ جن میں سے دو تین سوالات کوئلہ سے بجلی بنانے پر کئے گئے۔ جن کے جواب وزیرصاحب نے بڑے اعتماد سے دیئے کہ ہم نے پانی سے بھی بجلی بنانے کے کئی منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں۔چین پاکستان معاشی راہداری میں یہ منصوبے کوئلے کی مدد سے شروع کئے جارہے ہیں۔ اور ہمارے پاس کوئلہ کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن کے استعمال میں اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔ ویسے بھی اور ملکوں نے بھی تو پہلے کوئلے سے ہی بجلی بنائی تھی اوراب وہ دوسرے ذرائع کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ ایک محقق نے یہ ایک سوال کیا کہ بجلی تو بن جائے گی لیکن اس کی تقسیم اورترسیل کے عمل کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے؟ یقیناً یہ ایک بڑا اہم سوال تھا۔ وزیرصاحب نے جواب دیا کہ اس کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ مل سکے ۔ حاضرین میں سے موجود ایک نے سوال کیا کہ سپرپاور اس منصوبے پر اپنا ردعمل دکھاسکتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟ اسی بات کو آگے بڑھتے ہوئے سوال کیا گیا کہ ہمارے قریبی ملک کے لیے یہ منصوبہ ایک متبادل کے طور پر ہوگا تو کیا وہ جوابی وار نہیں کرے گا؟ ایسے میں آپ نے احتیاطی اقدامات اٹھانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟ جس کے جواب میں وزیر موصوف نے کہاکہ یہ بات ہمارے ذہن میں بھی ہے اور موثر حکمت عملی تیار کررہے ہیں۔ اس سیمینار کے بعد شام کولاہور کا اور پھر متواتر خودکش حملے ہوتے چلے گئے۔ توراقم یہ سوچنے پر مجبور ہوگیاکہ کسی کامیاب منصوبے کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس کے ممکنہ منفی ردعمل کے تدارک کا بندوبست پہلے سے کرلیاجائے تاکہ افسوس اورپچھتاوے کے بجائے ایسے حادثات سے بچاجاسکے۔اس کے علاوہ ایک بڑا دلچسپ سوال تھا کہ جب یہ منصوبہ Game Changer یاکھیل مبدل ہے تو صرف چینی سرمایہ کار ہی کیوں اس کی طرف راغب ہورہے ہیں؟ ملکی سرمایہ داروں کو اس میں دلچسپی کیوں نہیں پیداہورہی ہے؟ وزیرصاحب نے جواب دیا کہ دونوں ملکر سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ اس موقع پر راقم کو خیال آیا کہ اگر ہر سیاسی پارٹی کے چند امراء جو کے پارٹی کے اہم رہنما بھی ہیں اپنی شراکت اس میں ڈالیں۔ اور اپنا ذاتی سرمایہ چین پاکستان معاشی راہداری منصوبے میں لگائیں تو عوام کا اعتماد اس منصوبے پر بڑھ جائے گا۔ اور لوگ اسے اپنے اوپر چین کا تسلط نہیں سمجھیں گے۔ (جوکہ ایک غلط تاثر ہے) آخرغلط گمان اور منفی خیالات کو مثبت گمان اور مثبت خیالات میں بدلنا حکومت کو ہی پڑے گا۔
.