• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نوازشریف کے سیاسی کیرئیر کے کٹھن ترین پاناما کیس کی سماعتیں مکمل ہوگئی ہیں۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں طویل سماعتوں کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے۔یہ کیس اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ بنچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ دوسری مرتبہ وزیراعظم کی اہلیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ ہیں۔سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے جس بنچ نے نااہل قرار دیا تھا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ اسی بنچ کا حصہ تھے۔اس لئے یہ بھی ایک نئی تاریخ رقم ہونے جارہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی اہلیت کا فیصلہ جس بنچ نے کرنا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نہ صرف اس کا حصہ ہیں بلکہ بنچ کی سربراہی کررہے ہیں۔کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد تمام حلقوں کو فیصلے کا شدت سے انتظار ہے۔اس میں کوئی دو رائے کہ پاناما کیس کا فیصلہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہوگا۔مگر اس موقع پر کیس کے قانونی پہلوؤں اور فیصلے کے حوالے سے کوئی بھی رائے دینا مناسب نہیں،ہم سب کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے تک انتظار کرنا چاہئے۔
پاناما کیس کے حوالے سے اکثر لکھتا رہا ہوں کہ اس معاملے کی قانونی سے زیادہ اخلاقی حیثیت ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی عوام میں مسلم لیگ ن کے سربراہ کی حیثیت سے اخلاقی قدر مضبوط رہی ہے۔مگر اس کیس کا فیصلہ سب کچھ بدل کر بھی رکھ سکتا ہے۔وزیراعظم اور ان کے خاندان کے حق میں آنے والا فیصلہ انہیں سرخروجبکہ ان کے خلاف آنے والا فیصلہ حکمران جماعت کی بنیادیں ہلا سکتا ہے۔پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکلا کی عدم ثبوتوں پر عدالت سے سرزنش کے بعد حکومتی صفوں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ رہی تھی ۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے عدالتی ریمارکس کا خوب تذکرہ کیا۔عوام میں تاثر ابھرا کہ نوازشریف کے خلاف کیس میں کوئی مواد نہیں ہے۔مگر جب وزیراعظم نوازشریف کے وکلا نے دلائل دینا شروع کئے تو پورے کیس کا نقشہ ہی بدل گیا۔پہلے وکلاکی تبدیلی اور پھر حکومتی میڈیا ٹیم کی جانب سے کمزور دفاع نے کیس کو بہت متاثر کیا۔مسلم لیگ ن کے خیر خواہوں کی رائے تھی کہ حکومت نے پاناما کیس کو برے طریقے سے ہینڈل کیا ہے،بہر حال ہر سماعت کے بعد عدالتی ریمارکس نے کیس کی سمت کا کافی حد تک تعین کیامگر ظاہر ہے حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔لیکن ایک بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ جس انداز میں کیس کی سماعتوں کا اختتام ہوا۔سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر 2میں حکمران جماعت کے لئے کوئی اچھا دن نہیں تھا۔تحریک انصاف کے وکلاکی رائے تھی کہ پاناما کیس میں کسی نتیجے تک پہنچنے کا واحد راستہ حدیبیہ کیس میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا بیان ہے۔اسحاق ڈار کے بیان کو اصل منی ٹریل کہا جاتا رہا۔نیب کے سربراہ پر کڑی تنقید کی گئی کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کیوں نہیں کی؟ ان سب خبروں کے سامنے آنے کے بعد گزشتہ رات پرانی فائلوں کی مٹی صاف کررہا تھا تو نیب کے اس وقت کے پراسکیوٹر کی چار صفحات پر مشتمل دستاویزات سامنے آگئی۔جس میں چیئر مین نیب کو تجویز دی گئی تھی کہ حدیبیہ کیس میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس سے صرف وقت اور وسائل کا ضیاع ہوگا۔چیئرمین نیب کو رائے دینے والے ان پراسکیوٹر صاحب کا نام پڑھا تو واضح ہوا کہ وہ آ ج سندھ ہائیکورٹ کے معزز جج ہیں۔تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر حقائق جاننے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔پاکستان کا کوئی بھی بڑا قانونی ماہر بتائے کہ بھلا نیب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے تین سال بعد اپیل کیسے کرسکتی ہے۔تحریک انصاف سمیت تمام ناقدین کو قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہئے۔باقی رہی پاناما کیس کی بات تو یہ طے ہے کہ اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔
جو لوگ آج سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں کیس کی اصل فریق ہیں اور عدالت میں دونوں ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔اس حوالے سے یہ واضح ہے کہ اگر ثبوت فراہم نہ کرنے کا کسی کو سب سے زیادہ اخلاقی و قانونی نقصان ہوگا تووہ وزیراعظم نوازشریف کی ذات ہے۔پانا ما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت نے تحریک انصاف کو نئی سیاسی زندگی دی ہے۔شاید فیصلہ وزیراعظم نوازشریف کے حق میں آجائے ،یا پھر ایسا فیصلہ جس کو دونوں فریقین اپنے اپنے حق میں سمجھیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پاناما کیس نے حکمران جماعت کی ساکھ کو بہت حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کے وکلاکا عدالت میں بیان کیا گیا موقف سو فیصد درست ہو مگر جس انداز میں کیس کی جنگ لڑی گئی ہے۔اس سے کوئی احمق ہی متفق ہوسکتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ جب پہلی مرتبہ پاناما لیکس کی خبر قومی و بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی تھی تو اپنی رائے کا اظہار کیا تھا کہ اس معاملے کو (Unattended)جانے مت دیجئے گا۔ واضح لکھا تھا کہ کسی اسٹیج پر جا کر وزیراعظم کے قوم سے خطابات او ر حسین نواز کے انٹر ویوز مشکلات میں اضافہ کریں گے۔کیونکہ میری زندگی کا اصول ہے کہ اگر کبھی آپ پر تعزیزات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت قتل کا جھوٹا مقدمہ درج ہوجائے تو پھر یہ سمجھ کر لڑیں کہ آپ نے قتل کیا ہے۔اسی صورت آپ بری ہوسکیں گے۔کیس کے اختتام پر مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی بات کو ہی درست مان لیا جائے کہ عدالت کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے ،جس کی بنیاد پر وزیراعظم نوازشریف کو نااہل قرار دیا جاسکے اور عدالتیں ہمیشہ ثبوتوں کو دیکھ کر فیصلہ کرتی ہیں۔لیکن کیا مسلم لیگ ن کے اکابرین دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے کہ اس کیس سے اخلاقی حیثیت کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔مسلم لیگ ن کو پاناما کیس سے جو بھی سیاسی نقصان ہوا ہے،اس کو کور کرنے کے لئے شدید محنت کرنا ہوگی اور آئندہ کے لئے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئےکہ سیاسی ساکھ کے حوالے سے معاملات کو غیر سنجیدگی سے ڈیل نہیں کرنا۔پاناما کیس کا فیصلہ وزیراعظم نوازشریف کی کھلی کتاب کا اہم باب ہوگا،جسے مسلم لیگ ن کو اپنی سیاسی تاریخ میں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔



.
تازہ ترین