کراچی کے علاقے لانڈھی میں کپڑے کی فیکٹری میں لگنے والی آگ پر قابو پالیا گیا،کولنگ کا عمل جاری ہے،10 گھنٹےبعد فائٹرعمارت میں داخل ہوسکے ، عمارت کی حالت مخدوش ہے اورگرنے کا خدشہ ہے۔
لانڈھی کے صنعتی علاقے کی اس گارمنٹ فیکٹری میں آگ جمعے کی سہ پہر لگی ۔ فیکٹری میں آگ پر قابو پانے کے انتظامات نہ تھے، اس لیے بھڑکتے ہوئے شعلوں نے دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری کی تینوں منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
تیسرے درجے کی آگ پرقابو پانے کیلئے فائر بریگیڈ کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں، 10گھنٹےبعد فائٹرمخدوش عمارت میں داخل ہوپائے،رات بھر جاری رہنے والی کوششوں کے باوجود بھی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا ۔ آگ کی شدت کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی رہی ۔
فیکٹری کے مالک نے الزام لگایا ہے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تاخیر سے پہنچیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پوری فیکٹری جل گئی ہے۔
چیف فائر آفیسر تحسین احمد نے الزامات مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ تمام وسائل بروئے کار لاکر آگ بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 16 فائر ٹینڈر ز، ایک اسنارکل اور 2 واٹر باؤزر آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔
کراچی کی فیکٹری میں لگی آگ پر سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت میں بھی اختلافات کھل کرسامنےآگئے۔ فیکٹری میں آگ بھڑک رہی تھی تو صوبائی وزیر جام خان شورو اور میئر کراچی وسیم اختر فائر بریگیڈ کی نااہلی اور اختیارات کی عدم دستیابی کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے۔
جیونیوز سے گفتگومیں میئرکراچی وسیم اختر کا کہنا تھا کہ وسائل کے مطابق آگ بجھانے کی کوشش ہے،آٹھ برسوں کا بگاڑ ہے۔
صوبائی وزیر جام خان شورو نے کہا کہ محکمہ فائر بریگیڈ آٹھ برس سے حکومت سندھ کے پاس نہیں، 2012تک تو متحدہ پیپلزپارٹی کی اتحادی تھی۔
جام خان شورو نے کے ایم سی اور دیگر محکموں میں مسائل کی بڑی وجہ گھوسٹ ملازمین کو قرار دیا جو تنخواہیں تو لیتے ہیں لیکن کام کرتے نظر نہیں آتے۔