• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی آرمی چیف کی رونمائی اور پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ,,,,معاشی حقائق…سکندر حمید لودھی

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان میریٹ ہوٹل اور ممبئی کے واقعات کے بعد کشیدگی پہلے سفارتی اور سیاسی مطلع پرتو ابرآلود ہی رہی تھی اب دونوں ممالک کی مسلح افواج کے سربراہوں کی طرف سے اپنے اپنے ملک کے بھرپور دفاع کے اعلانات سامنے آنے کے بعد کئی خدشات نظرآنے لگے ہیں کہ مستقبل میں صورتحال ٹھیک ہونے کی بجائے شاید خراب ہونے والی ہے۔ پاکستان میں پچھلے 60 برسوں سے مسلح افواج کے سربراہ کسی نہ کسی شکل میں میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے آتے رہے ہیں۔ کبھی وہ ملک کے صدر بنتے رہے ہیں اور کبھی ملکی دفاع کے ذمہ دار، پاکستان کے موجوہ آرمی چیف جنرل کیانی جو بڑے اچھے گالفر یعنی گالف کھیلنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، انہیں یہ ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلے امریکی جریدہ ”ٹائم“ نے دنیا کے 100 بڑے طاقتور افراد اور حال ہی میں دوسرے عالمی جریدہ ”نیوز ویک“ نے 50 بڑے افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے اس کے علاوہ امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن نے ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کااعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ جنرل کیانی جرأتمند اور صحیح لیڈرہیں جو سخت فیصلے کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ان کی اس بات کے کئی معنی اور کئی پہلو ہیں۔ لیکن ہم یہاں صرف دفاعی نقطہ نظر سے ہی بات کریں گے۔ پاکستان کے آرمی چیف شاید بھارتی حکمرانوں کی نیت پہلے ہی بھانپ چکے تھے، اس لئے انہوں نے کافی دنوں پہلے کہہ دیا تھا کہ پاکستان اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لیکن پورے پاکستان اور دنیا بھر کے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ 1971ء کے سانحہ کے بعد پہلی بار بھارتی فوج کے کسی سربراہ نے بھارتی میڈیا کے سامنے آنا شروع کیا ہے۔اس وقت جب پاکستان دولخت ہو رہا تھا اور بھارتی فوج کے سربراہ جنرل مانک شاہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اپنی افواج کے ساتھ سرگرم تھے جبکہ ہمارے مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل نیازی اور دوسرے اعلیٰ حکام صرف اعلانات اور دعوے کر رہے تھے اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ اب 1971ء کے بعد پہلی بار بھارت کی اعلیٰ سیاسی اور انتظامی قیادت نے پہلے اپنے آرمی چیف جنرل دیپک کمار کی میڈیا پر بڑے بھرپور اندازمیں رونمائی کرائی ہے جس کاایک مقصد تو سمجھ میں آتا ہے کہ شاید بھارتی فوج کامورال بلند کرنے کے لئے وہ خود اپنی قوم اور میڈیا کے سامنے آئے ہیں کیونکہ یہ بات تو اٹل حقیقت ہے کہ ممبئی واقعات صرف اور صرف بھارتی سول اور فوجی انٹیلی جنس ا ور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے۔ اس میں کون ملوث تھا اور کون نہیں تھا؟ بہرحال یہ بھارتی حکام کی نااہلی تھی جسے بھارت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس بات کا دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ بھارتی آرمی چیف خود بھی بھارتی سیاست میں دلچسپی لینے کے موڈ میں ہوں، کیونکہ اس وقت بھارت میں اندرونی سطح پر کئی نسلیں اور طاقتیں ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود کانگریس او ر حکمران اتحاد سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہی چیز امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت کو اقتصادی سے زیادہ اندرونی طور پرکمزور کردیاجائے۔ اس کے لئے آنے والے مہینوں میں اس بات کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کہ بھارتی فوجی قیادت کی مداخلت بھارتی سیاسی نظام میں حد درجہ بڑھ جائے جبکہ پاکستان میں غالباً 1977ء کے بعد ہمارے ہاں اب تک پہلے ایسے آرمی چیف آئے ہیں جن کا سیاست میں آنے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں ہے ویسے بھی ٹھنڈی طبیعت کامالک اور اوراچھا سپورٹس مین سیاست سے دور رہنے ہی کو ترجیح دیتاہے۔ پاکستان کے حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی سیاسی قیادت سیاسی فرنٹ پر پوری ذمہ داری کے ساتھ ملکی دفاع اور سلامتی کے تحفظ کیلئے کام کرے جبکہ فوجی قیادت مسلح افواج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافہ اورملکی دفاع کی ذمہ داریاں پوری کرے۔ کیونکہ پاکستان اس وقت ایک نہیں کئی طرح کے داخلی اور خارجی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔ جس کے اثرات بڑھنے سے پاکستان میں غربت اورہر شعبے میں تنزلی بڑھنے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس وقت حکومت کو فوری طور پر قوم کا مورال بلند کرنے کے لئے بھارت کی مختلف دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ملک کی معاشی سرگرمیوں کی بحالی کی طرف بھرپور توجہ دینا چاہئے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملکی سکیورٹی اور فوڈسکیورٹی دونوں ہی ناگزیر ہیں۔ ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری تو آرمی چیف جنرل کیانی اور ان کی ٹیم پوری کرنے میں مصروف ہے جبکہ فوڈ سکیورٹی سے لے کر انرجی سکیورٹی کی ذمہ داری حکمرانوں کو پوری ذمہ داری اور سمجھداری سے ادا کرنا ہوگی۔ اس کے لئے انہیں 1970ء سے پہلے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ بھارتی قیادت نے کسی سوچے سمجھے منصوبے اور حکمت ِ عملی کے تحت اپنے آرمی چیف کی رونمائی بھارتی اور عالمی میڈیا پر بار بار کرائی ہے اس کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں اور کیا نہیں ہوسکتے؟ بہرحال ہمیں ہر حال میں بھارت کی ہر قسم کی جارحانہ پالیسیوں اور سازشوں سے باخبر اور ہوشیار رہنا ہوگا اس کے لئے پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط بنانے سے کئی مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ ہمیں ایک بھرپور مہم کے ذریعے بھارت کا اصلی چہرہ قوم اور دنیا کے سامنے لانا چاہئے تاکہ اس کے مذموم عزائم کسی طور کامیاب نہ ہوسکیں۔
تازہ ترین