پارلیمنٹ ڈائری (محمد صالح ظافر+ خصوصی تجزیہ نگار) جمعۃ المبارک کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس مختصر دورانیے پر مشتمل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ارکان کی بڑی تعداد حاضری کے تکلّف سے آزاد رہتی ہے، قومی اسمبلی میں اسپیکر سردار ایاز صادق مسند نظامت پر فائز تھے جبکہ سینیٹ میں میاں رضا رَبّانی بلند مسند پر جلوہ اَفروز تھے، سردار ایاز صادق الیکشن کمیشن کے فیصلے کے اثر سے تاحال باہر نہیں نکلے جس میں فاضل کمیشن نے اس ریفرنس کو تکنیکی بنیادوں پر خارج کر دیا ہے جو حکمران پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی بدعنوانیوں کے سنگین الزامات کے حوالے سے دائر کیا تھا۔ ان الگ الگ ریفرنسز کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے سردار ایاز صادق نے اپنی دانست میں لائق سماعت سمجھتے ہوئے انہیں الیکشن کمیشن کو سونپ دیا تھا دوسری جانب تحریک انصاف کی طرف سے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف ریفرنس کو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے روک لیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بطور اسپیکر سردار ایاز صادق کے لئے باعث آزار نہیں تھا، عام فہم لہجے میں کہا جاتا ہے کہ کسی ریفرنس کو روک دینے یا ارسال کر دینے میں اسپیکر کا کردار محض ’’ڈاکئے‘‘ کی مانند ہوتا ہے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بنیاد بنا کر قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق پر بے رحمانہ سنگ باری کی۔ ان کی شہرت یہ ہے کہ وہ سنگ باری کرتے ہوئے سنگ شماری نہیں کرتے خواہ وہ ذہنی معذور ہی کیوں نہ دکھائی دینے لگیں۔ پارلیمانی نظام اور جمہوریت کی معمولی شدھ بدھ رکھنے والوں کے لئے یہ امر شدید حیرت کا باعث تھا کہ خان پے در پے سردار ایاز صادق پر حملہ آور ہو رہے تھے اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ سراسر احمقانہ مطالبہ تھا جس کے زیر اثر اسپیکر سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے ایوان کو چلایا، قومی اسمبلی سے وزرا اور ارکان کی بڑی تعداد کا غیرحاضر رہنا کوئی خلاف معمول بات نہیں، معروف جمہوری طرزہائے حکومت میں ارکان اس وقت یکجا ہوتے ہیں جب قانون سازی کا کوئی مرحلہ درپیش ہو یا ان کی حاضری اشد ضروری ہو۔ برطانیہ، جسے مادرِ جمہوریت کہا جاتا ہے، وہاں بھی دارالعوام میں عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایوان میں بحث و تمحیص زور و شور سے جاری رہتی ہے اور گنتی کے چند ارکان ایوان کی زینت بنے بیٹھے رہتے ہیں کوئی ہنگامہ نہیں ہوتا کہ وزیر حاضر نہیں یا ارکان دکھائی نہیں دے رہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے جمعۃ المبارک کو شاید عمران خان کی زبان درازی کو دل پر لے لیا۔ انہوں نے مرنج و مرنجاں زاہد حامد کی گوشمالی کی، جو قانون و انصاف کے وفاقی وزیر ہیں اور پارلیمانی کارروائی میں ممد و معاون کا کردار ادا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کا دوسرا ہدف نفیس طبع وزیر مملکت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری بنے، یہی نہیں پارلیمانی ایوانوں میں امرت دھارے کا کردار ادا کرنے والے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد، سردار ایاز صادق کے تیروں کی زَد میں آئے ،وقفہ سوالات میں ان کا کہنا تھا کہ وزراء تو درکنار پارلیمانی سیکرٹری بھی ایوان میں حاضر نہیں۔ ان کے طلب کرنے پر وفاقی وزرا زاہد حامد اور آفتاب شیخ بھاگم بھاگ آئے تو اسپیکر نے انہیں جھاڑ پلا دی۔ وزیر مملکت ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو انتباہ جاری کیا کہ وہ آئندہ غیرحاضر پائے گئے تو کارروائی کا نشانہ بنیں گے ،ان کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی۔ اسپیکر نے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کو ہدایت کی کہ سینیٹ سیکرٹریٹ سے رابطہ کر کے اس امر کو یقینی بنائیں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جن اَیّام میں دونوں ایوانوں کی کارروائی کا وقت یکساں ہو تو دونوں ایوانوں میں ایک جیسے موضوعات اور وزارتوں کے امور زیربحث نہ لائے جائیں اور یقینی بنایا جائے کہ دونوں ایوانوں کا ایجنڈا یکساں نہ ہو۔ اسی اثناء میں شیخ آفتاب احمد ایک مرتبہ پھر غائب ہوگئے۔ اس پر اسپیکر نے دوبارہ انتباہ جاری کیا کہ ان کی تنخواہ بھی کاٹنا پڑے گی۔ اسپیکر کے اس جملے کی گونج ایوان میں موجود ہی تھی کہ شیخ آفتاب ہانپتے کانپتے ایوان میں پہنچے اور اسپیکر سے لجاجت آمیز لہجے میں کہا کہ جناب میں آپ کے حکم کی تعمیل کرنے ہی گیا تھا، جس پر ایوان میں قہقہے بکھر گئے۔ وہ مسند نشین کو بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ مطلوبہ وزیر کو دوسرے ایوان سے لینے گئے تھے۔ اسی دوران حکومتی سیاسی جادوگر خواجہ سعد رفیق اپنے رفیق کار وزرا کی حمایت میں اُتر آئے اور استدعا کی کہ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ آپس میں فیصلہ کریں اور ہماری مشکل آسان کر دیں۔ قومی اسمبلی میں آئیں تو سینیٹ سے عدم موجودگی پر ڈانٹ پڑتی ہے دوسرے ایوان میں جائیں تو آپ خفا ہوتے ہیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے مسند نشین میں پی ٹی ماسٹر کی روح حلول کرتی دکھائی دی جس کا زیادہ مظاہرہ ایوان بالا میں ہوتا رہتا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اور پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ میں لفظوں کی مڈبھیڑ ہوگئی جب حزب اختلاف کی صفوں سے کورم کی نشاندہی ہوگئی۔ وہ جماعت اسلامی کے پارلیمانی گروپ لیڈر صاحبزاہ طارق اللہ خان کے استسفار کا جواب دے رہے تھے،جنہوں نے خواجہ سعد رفیق کے اس دعوے کے بعد کہ انہوں نے بڑے بڑے بااثر لوگوں سے ریلوے کی زمین واگزار کرائی ہے، کہ حکومت نے اراضی کے ان قابضین میں سے کتنے لوگوں کو عدالت سے سزا دلائی ہے۔ کورم کی کمی کے باعث اجلاس ملتوی ہوگیا۔