• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس پر فائرنگ،پولیس اہلکاروں کی تربیت پر سوالیہ نشان

کراچی (ثاقب صغیر /اسٹاف رپورٹر)ناظم آباد میں پولیس اہلکار کی جانب سے مسافر بس پر اندھا دھند فائرنگ کے واقعہ نے پولیس اہلکاروں کی تربیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے ہیں،مسافر بس پر فائرنگ نے شہریوں کی پریشانی اورڈر میں اضافہ کیا ہےاور پولیس سے تحفظ کا احساس ہونے کے بجائے اب وہ پولیس سے مزید خوف محسوس کریں گے۔واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی گئی اور مختلف بیانات دیئے جاتے رہے تاہم جب بس ڈرائیور نے حقیقت بتائی اور ملوث پولیس اہلکار کو گرفتار کیا گیا تو ڈی ایس پی ناظم آباد کیجانب سے میڈیا کے سامنے ملوث اہلکار کے منہ پر تھپڑ مارے گئے جس سے پولیس افسران کی تربیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اے آئی جی ٹریننگ سندھ عابد قائمخانی سے جب اس حوالے سے استفسار کیا گیا تو انکا کہنا تھا کہ بغیر چیک پوسٹ کے بس کو روکنے کا اختیار صرف ٹریفک پولیس کو ہے ۔انہوں نے بتایا کہ یہ بات بنیادی تربیت کا حصہ ہے کہ اگر خودکش بمبار کی اطلاع بھی ملے تو جب تک اسکے خودکش ہونے کے بارے میں سو فیصد یقین نہ ہو اس پر براہ راست فائرنگ نہیں کی جا سکتی ۔انکا کہنا تھا کہ جب تک تھانہ کلچر تبدیل نہیں ہو گا اس وقت تک پولیس اہلکاروں کیساتھ یہ مسائل رہیں گے۔پولیس اہلکار وقت سے زیادہ ڈیوٹی کرتے ہیں،انکے کھانے اور سونے کا کوئی وقت نہیں ہے اور پھر تھانوں کا ماحول بھی ایسا نہیں ہے جہاں انھیں کسی قسم کا ریلیف ملے اسلیئے اکثر پولیس اہلکار اس ماحول اور ٹائم ٹیبل کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔عابد قائمخانی نے بتایا کہ اب ٹریننگ سینٹرز میں بھی ماحول تبدیل ہوا ہے اور اب جن نئے اہلکاروں کو تربیت دی جا رہی ہے انکی جسمانی تربیت کیساتھ اخلاقی اور نفسیاتی تربیت بھی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں اہلکاروں کی ٹریننگ کے لیئے پاک فوج کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جسکے نتیجے میں 4ہزار پولیس اہلکار پہلے مرحلے میں تربیت حاصل کر چکے ہیں جبکہ6ہزار اہلکار اس وقت تربیت کے عمل سے گذر رہے ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اس وقت پورے شہر میں جوپولیس اہلکار ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں ان میںسے کتنے ایسے ہیں جو شہریوں کی معمولی سے غلطی پر اسطرح براہ راست انھیں فائرنگ کا نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ اسطرح کے کسی بھی واقعہ میں زیادہ لوگوں کی جان بھی جا سکتی ہے۔
تازہ ترین