گزشتہ دنوں ایک فیصلہ امیگریشن کے کیس میں برطانیہ کی سب سے بڑی عدالت نے دیا جبکہ حجاب کے بارے میںپارلیمنٹ نے اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا۔ پہلے ہم امیگریشن کے سلسلہ میں عدالتی فیصلہ پر غور کرتے ہیں۔ ہم تارکین وطن کی آبادی اس ملک میں ابھی نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خاتمہ سے پہلے ہی شروع ہوچکی تھی مگر نقل مکانی میں تیزی 1970کے بعد آئی، لیبر پارٹی نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں کافی نرمی دکھائی اور تارکین وطن کو اپنے متعلقین کو بلانے میں زیادہ سہولت میسر آئی مگر ٹوری پارٹی کی بدلی ہوئی پالیسی میں دشواریوں کا سامنا رہا، ٹوری پارٹی کے زمانہ میں ایک قانون یہ بھی بنا کہ لڑکے یا لڑکی کو اپنے ساتھی کو بلوانے کے لئے 18ہزار اور کچھ اوپر رقم کی آمدن کا ریکارڈبھی پیش کرنا ہوگا اور اس آمدن کے لئے عملی کام کی جانچ پڑتال بھی ہوسکتی ہے، حکومت کے اس فیصلہ کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیا اور آخرمیں ملک کی سب سے بڑی عدالت کو دکھوں کا مداوا قرار دیتے ہوئے اس سے رجوع کیا گیا تاہم عدالت میں پیش ہونے والے انسانیت دوست وکلا کے موقف کے باوجود فیصلہ یہی آیا کہ حکومت نے جو معیار مقرر کیا ہے وہ درست ہے اور اسے ہی تسلیم کرنا ہوگا، عدالتی فیصلہ سے تو کسی کو بھی انخراف نہیں اور جب تک یہ فیصلہ قائم ہے اس وقت اس کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، تاہم ہمیں جن پریشانیوں کا سامنا ہے ان کے تذکرے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ برطانیہ میں کام کی صورت حال کافی عرصہ سے خراب ہے۔ زیادہ تر کام والے ادارے حکومتی کم از کم حد کو ہی پورا کرنے میں اپنی خیریت سمجھتے ہیں جبکہ یہ صورت حال بھی سبھی جگہوں پر موجود نہیں، 18ہزار اور اس سے اوپر کی آمدنی میں ٹیکسوں کا بھی ایک خاصا بوجھ ہے۔ میرے خیال میں عدالت تو اس سلسلہ میں کوئی نیا فیصلہ فوری طورپر نہیں لائے گی، البتہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں عوام کی منتخب کردہ ہیں اور وہ عوام کی فلاح وبہبود کو بھی ترجیح دیتی ہیں، لہٰذا اگر وہ تارکین وطن کو بھی اپنے جیسا انسان تسلیم کرلیں تو ان کی مہربانی سے قوانین میں فیصلہ کے بعد بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ یورپ سے علیحدگی کے فیصلہ کے بعد معاشی صورت حال کی تبدیلی کے بہت مواقع ہیں لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ جس طرح پہلے تارکین وطن نے ملک کے معاشی استحکام میں مثبت کردار ادا کیا ہے اسی طرح اب بھی تنظیم نو میں یقیناً تارکین وطن موثر ثابت ہوں گے۔ تارکین وطن کی نسل میں جوان بچوں اور بچیوں کی تعداد خاصی ہے اور اب یہ نسل علم سے بھی شغف رکھتی ہے لہٰذا ان سے ملکی مفادات میں تعاون کو زیادہ سے مفید بنانا چاہئے، عدالت اور پارلیمنٹ دونوں سے انسانی ہمدردی کے ضمن میں غور کی درخواست ہے، امیگریشن کے حوالہ سے یوں تو مسائل کی لمبی فہرست ہے لیکن ان سب میں ترجیح اسی کوحاصل ہے البتہ تعلیم کے سلسلے میں بھی غور کی ضرورت ہے چونکہ دونوں ملکوں میں یہ ایک مضبوط رابطہ کی صورت ہے اور پھر یہاں آباد لوگوں کے والدین، قریبی رشتہ دار اور دوست واحباب بھی تنگی کے دور سے گزررہے ہیں، عدالت عالیہ کے فیصلہ کے بعد تھوڑا سا ذکر پارلیمنٹ کے اس خوش آئند فیصلہ کا بھی ہوجائے جس فیصلہ کی تمام مسلم قوم منتظر تھی۔ برطانیہ میں صرف مسلمان ہی آباد نہیں بلکہ برطانیہ کے اصل عیسائی باشندوں کے علاوہ اَن گنت مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں، یہودی تعداد میں مسلمانوں سے کم ہیں مگر وہ اپنی اقدار کے تحفظ میں خاصے وضع دار ثابت ہوئے ہیں، تعلیمی سلسلہ اور حلال میٹ سمیت کئی ایک اپنے مذہبی سلسلوں کو وہ محفوظ بنائے ہوئے ہیں، خود برطانیہ کے چرچوں سے تعلق رکھنے والی خواتین حجاب کو اپنائی ہوئی ہیں، ایسے میں یہی توقع تھی کہ برطانوی پارلیمنٹ مسلمان خواتین کے لئے حجاب کےاختیار میں سختی کو نہیں اپنائے گی، چنانچہ یہ بات سب مسلمانوں کے لئے باعث اطمنان ہے کہ پارلیمنٹ نے ان کے موقف کو رد نہیں کیا، برطانیہ کے پڑوسی ملک فرانس میں حجاب کے خلاف مہم چلی تھی لیکن وہاں بھی نرمی اختیار کی گئی، پارلیمنٹ کے وہ تمام ارکان بشمول حکمراں جماعت کے پالیسی بنانے والے وہ ذمہ دار حضرات وخواتین قابل مبارک ہیں جنہوں نے مذکورہ مستحسن فیصلہ کو سامنے لانے میں کردار ادا کیا۔ عوام اور حکمرانوں میں ہر بات کو متنازع ثابت کرنا کوئی عقل مندی نہیں بلکہ جو معاملات بھی باہمی طورپر مفاہمانہ ماحول میں طے ہوجائیں وہ زیادہ اچھے ہیں، میری رائے میں حجاب کی طرح مکمل پردہ کے لئے بھی حکومت کو بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور مکمل پردہ کو محض دہشت گردی کے حوالے سے مسترد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دہشت گردی کرنے والے پردہ کے بغیربھی دہشت گردی کرسکتے ہیں، مسلمان اپنے حقوق ملنے پر حکومت اورملک کے لئے زیادہ وفاداد ثابت ہوں گے۔
.