• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج صبح اٹھاتو ایک بااثر شخص نے ایک پاکستانی ٹی وی چینل پر چلنے والا ایک گانامجھے وٹس ایپ (Whatsapp) کے ذریعے بھیجا۔ دیکھا تو سر چکرا گیا۔ یقین نہیں آیا کہ ایسا پاکستان میں ممکن ہو سکتا ہے۔ میڈیاکے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی پر پہلے بہت لکھا لیکن جو آج دیکھااُس نے بے ہودگی کی تمام حدوں کو پار کر دیا۔ یہ سب دیکھ کر اتنی پریشانی ہوئی کہبیان نہیں کر سکتااور سوچ میں پڑ گیا کہ پیمرا کالائسنس یافتہ کوئی ٹی وی چینل اتنی گندگی اتنی بے باکی کے ساتھ کیسے دیکھا سکتاہے۔ پیمرا سے بات کی کہ اس چینل کے خلاف ایکشن کیوں نہ لیا گیا تو کوئی جواب نہ ملا۔ چند گھنٹے بعد پیمرا سے مجھے بتایا گیا کہ نوٹس متعلقہ چینل کو بھیج دیا گیا ہے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ نوٹس اُسی چینل کے ایک اور متنازع مواد پر بھیجا گیا جبکہ وہ بے ہودگی جس نے صبح سے مجھے پریشان کیے رکھا اُس کے متعلق ایکشن نہ لیا گیا۔ دفتری اوقات کے بعد میری چیئرمین پیمرا ابصار عالم سے بات ہوئی جنہوں نے متعلقہ گانا دیکھ کر مجھ سے بات کی اور تسلیم کیا کہ یہ تو حد ہی ہو گئی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اس معاملہ پر سخت ایکشن لیا جائے گا جس پر میں نے انہیں ایک درخواست بھیجی کہ متعلقہ چینل کے لائسنس کو منسوخ کیا جائے۔ اس سے پہلے میں یہ مواد وزیر اعظم نواز شریف کے لیے اُن کے قریبی افراد کو بھجوا چکا ہوں تاکہ وزیر اعظم صاحب دیکھیں کہ حکومتی نا اہلی کی وجہ سے حالات کتنے خراب ہو چکے ہیں۔ میرا رادہ ہے کہ میں یہ معاملہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب تک بھی پہنچاوں گا کیوں کہ جو دیکھایا گیا اُسے دیکھ کر ہی حالات کی سنگینی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ میں اس کالم کے ذریعے بھی محترم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملہ پر سو وموٹو ایکشن لیں۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر پیمرا واقعی اس معاملے میں ایکشن لے بھی لیتا ہے تو معاملہ اسٹے آرڈر کی نظر ہو جائے گا۔ پیمرا کے ایک افسر کے مطابق ایک سنگین خلاف ورزی پر متعلقہ ٹی وی چینل نے معاملہ چھ سال اسٹے آرڈرزپر لٹکا دیا۔ ویسے تو پیمرا کےلیے فحاشی و عریانیت کی روک تھام کوئی priority نہیں رہی لیکن پیمرا کے افسران سے جب بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ اسٹے آرڈرز نے پیمرا کی رٹ کو ختم کر دیا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے بھی پیمرا چیئرمین نے یہی کہا کہ جب کسی چینل کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے تو اسٹے آرڈر دے دیے جاتے ہیں اور یوں معاملات عدالتی پیچیدگیوں کی نظر ہو جاتے ہیں اور جو بہتری چینلز میں لائی جا سکتی ہے وہ نہیں آ سکتی۔ میں اس معاملے کو پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن (PBA) کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں جن کے ممبران سے درخواست ہے کہ وہ اس مواد کو دیکھ کر فیصلہ کریںکہ اس ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیا PBA کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا چینلز کا کام صرف پیسہ بنانا ہے چاہے اس کے نتیجے میں کچھ بھی دکھا دیا جائے۔



.
تازہ ترین